لاہوراورترقیاتی کام


تقریباً دو سال ہونے کو آئے، جب ہمیں ایک سال ہوا تھا لاہور پدھارے ہوئے اور ہم نے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے لاہور کی شان میں کچھ گستاخیاں کی تھیں مثالاً تو  لاہور،  لاہور ہی ہے۔ لیکن تین سال میں جبکہ ہم ہم نہیں رہے تو لاہور سے یہ امید  رکھنا بے فضول ہی ہے۔ تین سال پہلے اور اب میں قدرِ مشترک  جناب وزیرِ اعلیٰ چھوٹے میاں صاحب ہیں۔  میاں صاحب وزیرِ اعلاؤں کی بشریٰ انصاری ہیں ہمیشہ کی بذلہ سنجی، پرفیکشن، خطرناک حد تک نوجوانگی  اور  مسلسل اپنی کرسی پہ قائم رہنا،  ماشاءاللہ۔ قائم سے قائم علی شاہ جی یاد آگئے اگر میاں صاحب وزیرِ اعلاؤں کی بشریٰ انصاری ہیں تو شاہ جی بھی قاضی واجد ہیں سپاٹ فِل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے مگر سن 1947 سے ہر ڈرامے میں جگہ ضرور پاتے ہیں۔ خیر، ہم کیا ذات کے بلاگر اور وزیرِ اعلاؤں کو جگتیں!
عوامی بات کریں تو لاہور اپنے کھابوں کیلئے ہمیشہ سے مشہور تھا  مگر سالِ گزشتہ لاہور کے کوچہ و بازار میں بکتا ہوا گدھے کا گوشت مزید عالمی شہرت کا باعث بنا۔ اب تو ڈر و احتیاط کا  یہ عالم ہے کہ اپنے سامنے بکرا ذبح کروا کر بھی پکوائیں تو دل میں عجب شک سا رہتا ہے۔  باقی رہی سہی کسر ہماری ہوم – میڈ جیولیا رابرٹس محترمہ عائشہ ممتاز نے پوری کردی۔ سوائے ہمارے کچن کے شاید ہی کوئی جگہ چھوڑی ہو جہاں چھاپہ مار کے عوام کا دل کھٹا نا کیا ہو۔ اب تو،
؎ دل جلانے کی بات کرتے ہو
باہر کھانا کھانے کی بات کرتے ہو
لاہور اس وقت شدید ترقی کی زد میں ہے۔ گزشتہ کافی سالوں سے مسلسل ترقیاتی کاموں کے باعث لاہور کی حالت بغیر وقفہ  ہر سال “خوشخبریاں دینے”  کے باعث اپنی عمر سے بیس سال بڑی لگنے والی نوعمر لڑکی جیسی ہوگئی ہے۔  میں میاں صاحب کی ایڈمسٹریشن کا مداح اور ترقیاتی کاموں کا بہت  بڑا سپورٹر ہوں لیکن  میری ایک عرض ہے کہ میاں صاحب ہن لہور دا کھیڑا چھڈ کے باقی پنجاب وی اکھیڑو۔ جتنا سیمنٹ اور کنکریٹ پچھلے چند سالوں میں تہہ در تہہ بچھائی گئی ہے اس سے بآسانی پورے لاہور پہ لینٹر ڈل سکتا تھا۔ اکثر سڑکوں کی ترقی یافتگی کو دیکھ کر انور مسعود صاحب  کی وہ نظم ‘قیمہ بوٹی، بوٹی قیمہ، مڑ بوٹی دا قیمہ’ یاد آجاتی ہے۔ مہینہ لگا کر ایک سڑک کشادہ کرتے ہیں اس پہ پیڈسٹرین برج بناتے ہیں اور پھر ہفتہ بھر بعد دوبارہ  اسی سڑک کو کھود کر مزید کشادہ کرتے ہیں سگنل فری بنا  دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ویسے ایک بات ہے لاہور کی سڑکیں آدھے پاکستان کے گھروں سے زیادہ صاف ہیں ۔ موسم کی بات کریں تو کم گرمی، گرمی، شدید گرمی، بے انتہا شدید گرمی۔ چند سال قبل تک کی  مشہورِ زمانہ دھند پتہ نہیں کہاں کھوگئی ہے۔  اب تو دھند کے نام پہ دھندلکا سا ہوتا ہے وہ بھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں!  پہلے پہل لوگ لاہور دیکھنے آتے تھے اب احتجاج کرنے آتے ہیں۔ آئے روز کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی احتجاج کررہا ہوتا ہے جیسے لاہور میں احتجاج کرنے کا زیادہ ثواب ملتا ہو۔

4 thoughts on “لاہوراورترقیاتی کام

Add yours

Leave a Reply to زویا Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: