جاب انٹرویو


originally published here:

السلام علیکم!  سیانے کہتے ہیں کہ مَردوں کو نوکری اور بیوی ہمیشہ دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ اول الذکر کے بارے تو  از  قہرو مہر ِ زوجہ کبھی سوچنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ تحقیق و تجسس کی ساری انرجی موخر الذکر  پہ ہی صرف ہوتی ہے۔  مزید سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ فی زمانہ رشتہ طے کرنا اور نوکری لینا ایک سے مشکل کام ہیں، ہم ان سے کبھی سہمت نا ہوتے اگر ایسا ایک واقعہ خود کیساتھ نہ پیش آیا ہوتا۔کچھ عرصہ قبل لنکڈ ان نامی ویب سائیٹ سے ایک ریکروٹر نے پروفائل شارٹ لسٹ کرکے ایک کمپنی میں بھجوائی، ہمیں اس کمپنی بارے زیادہ معلوم نا تھا مگر تجسس کے کیڑے نے کہا انٹرویو ضرور دینا چاہیئے غالبؔ چچا نے ایسے موقعوں کیلئے ہی تو کہا تھا  ‘مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے’۔ خیر، کچھ روز گزرے اور انٹرویو کی کال آگئی، ہم  مقررہ وقت سے پانچ سات منٹ پہلے پہنچ گئے، پہلا ٹاکرا ریسپشن پہ بیٹھے ایک نسبتاً باباجی سے ہوا، آجکل رسیپشن پہ بابے بٹھانے کا کون سا زمانہ ہے، کوئی خوبصورت دوشیزہ ہو تاکہ انٹرویو تو دلجمعی سے دیا جاوے یا انٹرویو کا انتظار ہی خوش دلی سے کیا جائے۔

خیر، مرتے کیا نہ کرتے چار و ناچار بابا جی سے کہا انٹرویو دینے آئے ہیں بولے ابھی بیٹھو وہاں لاؤنج میں، لاؤنج کا اے سی نہیں چل رہا تھا سو عرض کی اے سی چلا دیں، بولے نہیں چل رہا، کہا اچھا وہ ایل سی ڈی جو لگی ہے وہی آن کردیں خبریں سن لیتا ہوں بولے کیبل نہیں چل رہی، عرض کیا ایچ آر میں کال تو کرکے دیکھیں بولے ایکسچینج نہیں چل رہی۔ جھنجھنا کے پوچھا باہر ہوا چل رہی ہے تو وہاں چلا جاؤں بولے وہی تو بس چل رہی ہے۔ خیر، اللہ اللہ کرکے جن صاحب کو ملنے آئے تھے انکا دیدار ہوا، لفٹ حسبِ آفس نہیں چل رہی تھی۔      تین فلورز پہ مختلف آفسز اور ہرڈل رومز سے ہوتے ہوئے بالآخر ہم ایک راہداری نما ورک سٹیشن پہ بیٹھ کر اگلی منزل کا انتظار کرنے لگے اور سچویشن کے حساب سے   زیرِ لب گنگنانے لگے  ‘بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، کوئی ہمیں اٹھائے کیوں’ اور بالآخر اٹھا کے کھڑکی کے سامنے والی صوفی پر بٹھا دئیے گئے۔ جن صاحب نے  انٹرویو لینا تھا وہ کہیں مصروف تھے اور ہم سوچنے لگے کے ایسے ہی جب کسی غریب کے گھر رشتہ دیکھنے آتے ہیں تو مہمانوں کو کھجل کرتے ہیں کبھی اس کمرے میں بٹھاؤ کبھی اس کمرے میں کہ اسکا پنکھا ٹھیک نہیں اسکا بلب جھپکے مارتا ہے وغیرہ۔

پہلے ایک صاحب آئے انہوں نے راہداری میں انٹرویو لیا جس کے سوالات زیادہ تر آپریشنل نوعیت کے تھے، پھر وہ ہمیں دوبارہ رسیپشن پہ بیٹھنے کا کہہ کر کسی اور صاحب کو بلانے چلے گئے، اب کی بار ایک کانفرنس روم میں ایچ آر کی مینجر نے تنخواہ، کس کس کمپنی میں کام کیا، کیوں چھوڑی یہاں کیوں آنا چاہے ٹائپ سوالات کا انٹرویو کیا، پھر ہمیں دوبارہ رسیپشن پہ بٹھا کر ڈپارٹمنٹ ہیڈ کو لینے چل دیں، ان صاحب نے صد شکر اپنے کمرے میں بٹھا کر چائے پوچھی اور یہاں کیوں آنا چاہتے ہو، موجودہ کمپنی میں کیا مسئلہ ہے، تنخواہ اتنی کیوں مانگ رہے ہو، اچھا اگر رکھ لیں تو مہینے کا نوٹس کیوں ہے، گاڑی چھوٹی کیوں ہے اور ایسے ہی کئی دیگر ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے ۔ الغرض جیسے غریبوں کے گھر بر دکھائی کو لڑکا آجائے تو کہتے ہیں نا دبئی والے چچا آئے ہوئے ہیں ان سے بھی مل لیں اور سیالکوٹ والی پھپھو بھی اتفاقاً آج آئی ہوئی ہیں انہیں بلا کر لاتے ہیں وہ بھی دیکھ لیں، لڑکی کا بھائی پندرہ بیس منٹ تک آئیگا تب تک چائے پی لیں اور پھر انٹرویو لیتے ہیں لڑکا کرتا کیا ہے، کماتا کتنا ہے بہن بھائی کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ اور ہفتہ بھر بعد کال کرکے “آپ ہمیں بالکل پسند نہیں آئے” بالکل ویسے ہی ان کمپنی والوں نے دو دن بلا کے کمپنی نے ہر اس افسر جو انٹرویو لینے کے قابل تھا ہمارا انٹرویو دلوایا، تنخواہ تجربے سے لیکر ہر قسم کی معلومات حاصل کیں اور ایک بے رخ سے ای میل کردی کہ “آپ ہمیں پسند نہیں آئے”    اور ہم اپنے حسرتوں پہ آنسو بہاتے بلاگ لکھنے بیٹھ گئے۔

One thought on “جاب انٹرویو

Add yours

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: