قومی المیہ


مملکتِ خدادا کا قومی المیہ یہ ہے کہ ہر ہفتے ایک نیا قومی المیہ ہوتا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ نہانے کا گرم پانی نہ ملے تو وہ بھی قومی المیہ بن جاتا ہے۔ باقی تمام دنیا میں ورثے ہوتے ہیں ہمارے المیے ہیں جو سینہ بہ سینہ آگے چلتے ہیں۔ خیر، بات المیہ جات کی ہورہی تھی اور جیسا کہ آجکل رواج ہے ہر مسئلے اور موضوع پر اپنی رائے دی جائے ورنہ لوگ نکما یا لفافہ سمجھیں گے اسی لیئے ہم بھی (اپنے خیال میں) مشہور مشہور المیہ جات کو ذیل میں درج کیئے دیتے ہیں۔

نوٹ: نمبر صرف المیوں کا فرق رکھنے کے لیئے ہیں تمام احباب اپنے اپنے حساب سے آرڈر تبدیل کرسکتے انکا

1۔ بے پناہ عقل:

پاکستانیوں میں بفضلِ خدا بے پناہ عقل ہے اور یہ ایک قومی المیہ ہے۔ 18-20 کروڑ کی آبادی میں آرام سے 15 کروڑ آل راؤنڈر ایکسپرٹ نکل آنے ہیں (باقی کے 3-4 کروڑ شیر خوار یا بیمار ہیں) جو کرکٹ سے لے کر دفاعی پالیسی، داخلی امور جیسے کہ عدل و انصاف سے لے کر رفاہِ عامہ تک پہ بے لاگ تبصرہ کرسکتے ہیں یہی نہیں بلکہ چکن قورمے سے لے کر ملکی بجٹ تک بنا لیتے ہیں۔ اور بمصداق دو ملاؤں میں مرغی حرام، ملک کا جینا حرام کیا ہوتا ہے۔  بات وہی بچے والی کہ پتہ کدو کا نہیں اور چلے ہیں قوم و ملت سنبھالنے۔ اس بے پناہ عقل والے المیے سے ایک اور المیہ جنم لیتا ہے جو کہ ہمارا قومی رویہ بھی ہے یعنی مفت مشورے۔ چونکہ مجھ میں بے پناہ عقل ہے اس لیئے میں ہر معاملے میں اپنا مفت مشورہ ٹھوکوں گا اور نہ ماننے والے کے خلاف ہوجاؤنگا کیونکہ میں ٹھیک ہوں اور آپ سب غلط ہیں۔

2- میں ٹھیک ہوں، آپ غلط ہیں (فتوے):

 پاکستان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر بندہ ٹھیک ہے اور اسکے حساب سے ہر بندہ غلط۔، ایسی نازک صورتحال میں بڑے سے بڑا ریاضی دان بھی چکرا جائے کہ کل 18 کروڑ نفوس ہیں ان میں سے اٹھارہ کروڑ ٹھیک ہیں اور اٹھارہ کروڑ غلط بھی ہیں۔ ہر چیز کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ایک صحیح ایک غلط مگر پاکستان میں اسکے اتنے پہلو ہوتے ہیں جتنے لوگ کیونکہ میں ٹھیک ہوں اور آپ غلط ہیں۔ اس المیئے کو باقی المیوں کی امی بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے بہت سے اور المیئے جنم لیتے ہیں۔ سیاسی اختلافات، فرقہ واریت، دہشتگردی وغیرہم۔ میاں بیوی کی تکرار ہو یا سیاسی میدان، کھیل کی بات ہو یا عالمی بحران، میں ٹھیک ہوں میری رائے مقدم ہے اور آپ غلط ہیں کیونکہ اگر میں نے آپ کی بات کو صحیح مان لیا تو مجھے لوگ آپ سے کمتر سمجھیں گے، میری ناک نیچی ہوگی ایگو ہرٹ ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

3- جذباتیات:

ہم بہت جذباتی ہیں۔ جذباتی پن ایک المیہ بن چکا ہے۔ ابھی ورلڈ کپ ہوا، قومی ٹیم کے لیئے ہمارے جذبات اور نیک و بد تمنائیں اوور بائے اوور بدل رہی تھیں۔ یہی ٹیم جیت جاتی تو سر پہ بٹھاتے ہار گئی ہے تو جوتیاں مارتے پھر رہے۔ آپ کسی بھی پارک میں دیکھ لیں فرطِ محبت سے ہر درخت پہ فلاں لووز فلاں لکھا ہوگا، اور وہی بندہ بعد از ترکِ تعلقات پبلک و مساجد کے ٹوائیلٹ میں اسی محبوب بارے قلمطراز نظر آئیگا اور قوم کی آسانی کی خاطر موبائل نمبر بھی لکھ آئیگا۔  یہی حال قومی سطح پہ ہے۔ قیام کی جاہ پہ سجدہ ریز ہوجائیں اور جھکنے والی جگہ پر قیام پذیر ہوجائیں۔

4- میڈیا / سوشل میڈیا:

شطرِ بے مہار پاکستانی میڈیا محلے کی وہ ماسی ہے جو شرط لگا کے طلاقیں کرواتی ہے۔ بلاوجہ کی سنسنی، سب سے پہلے کی دوڑ، بس ریٹنگ بڑھانے کی خاطر ایسے ایسوں کو قومی و عالمی سطح پر اپنی ذہنی غلاظت نکالنے کا موقع مل جاتا ہے جنہیں مہانوں کے آنے پر گھر والے کمرے میں بند کردیتے ہیں کہ نہ سامنے آئے گا نہ بولے گا۔ ناپختہ ذہنوں میں وسوسے اور تفریقوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ نا کوئی مکمل غلط ہے نا مکمل صحیح۔

میڈیا کا ذیلی المیہ سوشل میڈیا ہے۔ ٹی وی شوز سے حاصل کی گئی لیاقت کو لوگ اپنا اپنا تڑکا لگا کر سوشل میڈیا پہ پیشتے اور اس پر لڑتے ہیں۔ فتوے لگاتے ہیں۔

5- ہمارے دانشور

قوموں کے دانشور انکے مفکر اور معمار ہوتے ہیں۔ ہم وہ بلڈنگ ہیں جسکی ہر اینٹ ایک ئے مستری نے اپنے انداز سے لگائی ہو۔ یہاں جس کو چست اس کو مفت کی طرح جو میسر ہے سو دانشور ہے۔ جو اول فول بکے گا، دوسروں میں کیڑے نکالے گا، پرکھوں بزرگوں کے لتے لے گا، باہر والوں کی مثالیں دیگا وہی دانشور ہوگا۔ ہماری قوم کی تنزلی کی واحد ترین وجہ ہمارے سو کالڈ دانشور ہیں۔ شلوار میں نالا خود سے ڈالا نہیں جاتا مگر ٹی وی پہ یا کالم کے ذریعے دنیا جہاں کا علم بکھیرتے پائے جاتے ہیں، جس موضوع پہ بولنا ہو اسی کے پی ایچ ڈی ہوجاتے ہیں۔ حسن نثار جیسے لوگ جو مفکر پاکستان کو عام ایورج شاعر کہتے ہیں جس قوم کے دانشور ہونگے وہ قوم پست ہی ہوگی۔

ہم میں تفرقہ ڈالنے، وسوسے پھیلانے بدظن کرنے اور اس جیسے اور بہت سے کارنامے ان دانشوروں کے سر ہیں۔

6- پھدو کھاتا

لاسٹ بٹ ناٹ دا لیسٹ۔ یہ لفظ تھوڑا غیر پارلیمانی ہے مگر دھرنوں زمانے میں قابلِ قبول ہے۔ یہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ وہ جیسے کہتے ہیں نا انگریزی دا “دی” تے پنجابی دا “داا” جتھے لگے اوتھے لا، تو پاکستان میں بھی جسکا “دا” لگا ہوا ہے وہ موج میں ہے۔ میرٹ کا قتل، کرپشن، اقربا پروری، نا اہلی، منافقت وغیرہم جیسی کونپلیں اسی جڑ سے پھوٹتی ہیں اور اب ماشاءاللہ یہ تن آور درخت بن چکا ہے جس پہ فرقہ واریت، دہشت گردی، عدم برداشت جیسے پھل لگ رہے ہیں۔

7- لبرلز اور منافقت

پاکستان میں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کا سنونم ہیں۔ ہمارے دیسی لبرلز منافقت کی چلتی مثالیں ہیں، جو کسر بھول چوک میں دانشوروں سے رہ جائے وہ بھی پوری کرتے ہیں اور انکے چھوڑے شگوفوں پہ جشنِ بہاراں بھی منعقد کرتے ہیں۔

صاحبو، یہ سب تو نہیں مگر ان المیوں میں سے کچھ ہیں جو ارضِ مقدس کو درپیش ہیں۔ ان سے کوئی لیڈر یا کوئی حکومت نہیں نمٹ سکتی یہ ہم سب مل کر کرسکتے ہیں۔ یہ حل ہوگئے تو باقی مسائل جن کا سب رونا روتے ہیں اپنے آپ حل ہوجانے۔ اللہ مغفرت کرے علامہ اقبال صاحب کی ہر موقع کیلئے موضوں شعر کہہ گئے جیسے اس بلاگ کے اختتام کیلئے:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا                              ؎

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

One thought on “قومی المیہ

Add yours

  1. بہت خوب ۔ شکریہ ابرار قریشی صاحب کہ آپ نے میرا کچھ بوجھ ہلکا کر دیا جس کا سبب بریکنگ نیوز ہے جو لکھتے ہوئے شاید آپ سے رہ گئی ۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کئی درجن بریکنگ نیوز میں سے چند مجھے کھائے جا رہی تھیں ۔ ایک جناح سوپر مارکیٹ ایف 7 اسلام آباد کی جس میں ایک لڑکی کو گھسیٹ کر کار میں ڈالنے کی کوشش اور مزاحمت پر فائرنگ ہوئی اور دوسری کیولری گراؤنڈ لاہور کی جس میں ایک کار چلانے والی لڑکی پر غصہ کھا کے فائرنگ کی گئی اور ایک بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا چھن گیا ۔ یہ وارداتیں نام نہاد سول سوسائٹی کے اُونچے ناموں والے پرائیویٹ سکولوں کالجوں مین پڑھنے والے سپوت کر رہے ہیں

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: