حج کیسے کریں؟


 E-Book: how to perform Umrah and Hajj

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ… لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ … إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ

حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں بے شک تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہو، تمام تعریفیں تیرے ہی لیئے ہیں، تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، اور تیری ہی بادشاہی سدا ہے، تیرا کوئی شریک، کوئی ہمسر نہیں۔

یہ کلمات جیسے ہی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں حج کا منظر کوندتا ہے، عقیدتوں کا ہالہ سا بن جاتا ہے، حرمِ مکہ کا تصور ذہن پہ چھا جاتا ہے اور تخیل میں عطربیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ یہ وہ کلمات ہیں جنہیں ہم بچپن سے سنتے  آئے ہیں اور اپنی دعاؤں میں اللہ سے مانگتے ہیں کہ ہمیں ان کلمات کو انکے مقام پہ ادا کرنے کی توفیق ادا کرے۔  اللہ ہم سب کو حج ِ بیت اللہ کی سعادت نصیب کرے اور بار بار کرے۔ جب تک ہم بلاوے کا انتظار کررہے ہیں اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے حج اور اسکے مناسک سے متعلق معلومات اور آگاہی حاصل کرلیں۔

 

حرفِ اول

میں کوئی مفتی، عالم یا حج ٹرینر نہیں ہوں۔ ذاتی تجربات و مشاہدات  تحریر کئے ہیں۔ یہ تحریر حج و عمرہ کے دوران رہن سہن اور مناسک کی ادائیگی میں آسانی کی نیت سے لکھی جارہی ہے تاکہ  حجاج اور معتمرین ان سے مستفید ہوسکیں اور بہتر انداز میں حج  و عمرہ کی  تیاری اور مناسک ادا کرسکیں۔   سفر اور حجازِ مقدس میں قیام کے دوران آسانیاں اور عافیت والا معاملہ ہو۔  اللہ سے دعا ہے کہ اس تحریر سے آپ کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچے  اور مناسکِ حج و عمرہ کی ادائیگی میں آسانی کا باعث بنے تاکہ آپ کے حج و عمرہ میں اس ناچیز کا بھی حصہ ہوجائے کہ یہی توشہ آخرت ہے۔ آپ سے اپنے، اپنے والدین اور اعزاء و اقراباء  کیلئے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔اللہ خیر و عافیت سے آپ کو واپس اپنے گھر والوں سے ملائے اور بار بار اپنے گھر کی رونقیں دکھائے۔آمین۔

ذیل میں درج تمام تر معلومات ذاتی مشاہدات، علماء کے بیانات اور ان کتب سے حاصل کی گئی ہیں۔

معلم الحجاج

فضائل حج

خواتین کا حج

مناجا تِ مقبول

حج   طریقہ قدم بقدم

حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں

علیکم بسنتی

 

حج کیا ہے؟

حج اللہ سے ملاقات ہے، بلکہ یوں کہیئے کہ اللہ کی طرف سے ملاقات کی دعوت ہے۔   ظاہر ہے دعوت اسی کو ملے گی جو ملاقات کامشتاق ہو۔  اسی لیئے علماء حج کو سفرِ شوق کہتے ہیں۔ شوق جس قدر  ہوگا اتنی ہی قربت نصیب ہوگی۔ باقی ارکان میں مالی یا جسمانی قربانی یا مشقت ہے اور درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھانے کیلئے ہیں اور حج میں مالی و جانی دونوں مشقتیں ہیں جو در حقیقت اللہ کے قرب کے زینے ہیں۔ بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حج بیت اللہ کرچکے ہیں یا کرنے جارہے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تو ارشادِ باری ہوا

وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ

اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے

حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم کے مطابق حج کا اعلان فرمایا اور اللہ تعالیٰ نےاپنی قدرت سے وہ آواز آسمان و زمین میں ہر ذی روح تک پہنچائی ۔ جس خوش قسمت روح نے لبیک کہا اسکے نصیب میں حج لکھ دیا گیا، جس روح نے جتنی مرتبہ لبیک کہا اسکے نصیب میں اتنی مرتبہ حج کی سعادت لکھ دی گئی، واللہ اعلم بالصواب۔

حج کس پر فرض ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورۃ ال عمران میں اتنی محبت و اپنائیت سے حج کی فرضیت بیان کی ہے

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
اللہ کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔اور جس نے انکار کیا تو اللہ  بے شک تمام جہانوں سےبے نیاز ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے گھر پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر حج فرض ہے۔ علماء استطاعت کی مد میں مالی استطاعت، صحت و تندرستی اور سفر کا امن و امان کو قرار دیتے ہیں۔  مالی استطاعت میں ایک تو نصابِ زکوٰۃ موجود ہو اور اتنا مال و دولت ہو جس سے حج کے سفر، رہائش وغیرہ کا بندوبست ہوسکے اور پیچھے اہل و عیال کا خرچ بھی چل سکے۔ صحت و تندرستی ہو، یعنی کوئی ایسا عذر یا معذوری وغیرہ نہ ہو جس کے باعث سفر نہ کرسکے یا مناسکِ حج ادا نہ کرسکے۔ سفر یا راستے کے امن سے مراد کہ اپنے علاقہ سے حجازِ مقدس آنے والا راستہ پر امن ہو کوئی جنگ وغیرہ نہ لگی ہو، اسکے علاوہ کوئی ایسا ظالم حکمران ہو جو حج کی اجازت نہ دیتا ہو تو اس صورت میں بھی چھوٹ ہے۔  مزید ارشاد ہوتا ہے

لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ۔  ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

تاکہ اپنے فائدوں کے لیے آ موجود ہوں اور تاکہ جو چارپائے اللہ نے انہیں دیے ہیں ان پر مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد (قربانی) کریں، پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی کھلاؤ۔پھر چاہیے کہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور قدیم گھر کا طواف کریں۔

اسکے علاوہ صحابہ کرام ،صلحاءا ور  اکابرین کے قول و عمل سے حجِ فرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی بہت تاکید ملتی ہے۔ یہاں ایک اور شرعی مسئلہ کہ جیسے زکوٰۃ یا قربانی وغیرہ کے معاملے میں اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو ادا کریں اور جب نہیں ہیں تو رخصت ہے، جبکہ حج اگر ایک بار فرض ہوگیا تو پھر چاہے مال و استطاعت نہ رہے، حج کی فرضیت برقرار رہے گی۔

اللہ کیسی اپنائیت  سے اپنی مخلوق کو حج کی دعوت  دیتا  ہے اور ہمارے یہاں باقی ہر بات کی طرح “بس جب اللہ نے توفیق دی تو حج بھی کرلیں گے”  کہہ کر معاملہ ٹال دیا جاتا ہے۔ بلکہ بہت سے ناعاقبت اندیش لوگ تاویلاً حج کا انکار بھی کرتے ہیں جیسے حج کی بجائے یہ پیسا کسی غریب کو دے دو وغیرہ وغیرہ  یا دیگر معاملات میں الجھے رہتے ہیں اور حج کا قصد نہیں کرتے۔ انکے لئےنبی اکرمﷺ کی یہ حدیث مبارکہ بہت واضح وعید  ہے

قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ملک زاداً وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یہودیاً اونصرانیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص کو خرچ اخراجات سواری وغیرہ سفربیت اللہ کے لیے روپیہ میسر ہو ( اور وہ تندرست بھی ہو ) پھر اس نے حج نہ کیا تو اس کو اختیار ہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر

حج پہ کیسے جائیں؟

فرضیت کے علاوہ بھی ہر مسلمان کے دل میں  حج  بیت اللہ کی خواہش ضرور ہونی چاہیئے۔ اب  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حج پر کیسے جائیں،  ہمیشہ سے سنا ہے کہ مال و دولت سے نہیں بلاوے سے حج پہ جاتے ہیں۔ بلاوا کیسے آئے، بزرگ کہتے ہیں کہ خود کو سراپا طلب بنالو، اپنے عمل سے، فکر سے، دعاؤں سے ۔  اللہ سے خوب خوب مانگیں، صدقِ دل سے مانگیں، یقین سے مانگیں۔  کچھ اعمال ہیں جن سے قوی امید ہے اللہ سبحان و تعالیٰ ہمیں اپنے پاک گھر کی حاضری ضرور نصیب کرے گا۔

  • ایک حج فنڈ بنا لیں جس میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم حج کیلئے جمع کرتے جائیں، یا حج کی نیت سے کمیٹی ڈال لیں
  • اللہ سے خوب گڑگڑا کر مانگیں، کوشش کریں تہجد کے وقت اٹھیں اور خلوت میں مانگیں اور اس یقین کیساتھ کہ اللہ ہی عطا کرنے والا ہے
  • فجر اور عصر کے علاوہ تمام نمازوں کیساتھ دو نفل صلوٰۃ حاجت پڑھیں، اللہ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے ‘مجھ سے مدد نماز اور صبر سے مانگو’
  • فرض نماز کے بعد 3 مرتبہ تلبیہ پڑھنے کی عادت بنالیں
  • حج کی معلومات وغیرہ ذوق و شوق اور اس نیت سے حاصل کریں کہ انشاء اللہ جیسے ہی موقع ملے، حج کیلئے جائیں گے
  • ہر ممکن حجاج کی خدمت کریں، کام آئیں اور بے لوث کریں کہ حاجی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں
  • جو عزیز دوست رشتہ دار عازمِ حج ہو اس سے خصوصی طور پہ حاضری کیلئے دعا کی درخواست کریں

حج  روانگی سےقبل

الحمدللہ آپ کو اللہ نے آپ کو حج کی سعادت کیلئے منتخب کرلیا ہے۔ اب آپ پر یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو حج کیلئے پوری طرح تیار کرلیں۔ سب سے پہلے شکرنے کے نوافل ادا کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوں کہ اس نے اس عظیم نعمت کیلئے بلاوا بھیجا ہے۔ اسکے بعد توبہ کرے، گزشتہ زندگی کے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کی معافی مانگے، آئندہ زندگی کو پابندِ شریعت کرنے کا ارداہ کرے اور حج روانگی سے قبل تک جس قدر ہوسکے استغفار پڑھتا  رہے۔ تاکہ جب حرم شریف میں داخل ہو تو گناہوں سے پاک ہواور وہاں کے تمام فیوض و برکات نصیب ہوں۔  روانگی سے قبل کوشش کریں نماز روزہ و دیگر دینی احکامات کی پابندی شروع کردیں ۔دینی مسائل سیکھیں کم از کم اپنی نمازیں درست کرلیں۔  روانگی سے قبل اپنے دینی و دنیاوی معاملات جیسے کہ لین دین، قرض، وصیت وغیرہ  ادا کرکے جائیں۔ اگر کسی سے ناراضگی ہے یا کسی سے زیادتی کی ہوئی ہے تو معافی مانگ کر جائیں، کسی نے آپکا حق ادا کرنا ہے تو بہتر ہے اللہ کی خاطر معاف کرکے جائیں۔اگر داڑھی نہیں ہے تو رکھ لیں، وگرنہ حج تک شیو نہ کریں تاکہ اللہ کے حضور ایسی حالت میں نہ پیش ہوں کہ خلافِ سنت عمل کررہے ہوں، یہی حال روضہ رسولﷺ پہ ہو۔

حج تیاری کے ضمن میں ہر طرح کی ذہنی، جسمانی اور شرعی تیاری آتی ہے۔ مناسکِ حج ، رہن سہن، سامانِ سفر ،  آب و ہوا، مزاج قانون وغیرہ کی معلومات ضرور حاصل کریں تاکہ وہاں جا کر بے فکری سے رہ سکیں اور تمام تر توجہ عبادت پہ دے سکیں اور بلاوجہ خود یا اپنے رفقاء کیلئے پریشانی کا باعث نہ بنیں۔

وازرتِ حج کی ویڈیو ایک بہترین قدم ہے تمام عازمینِ حج کو ضرور دیکھنی چاہیئے۔ تمام مناسک کو اچھی طرح سمجھ لیں اور  انکی ریہرسل کرلیں تاکہ ازبر ہوجائیں ورنہ حج کے دوران مناسک کی ادائیگی اور ترتیب وغیرہ میں کسی بھی غلطی کی صورت میں دم  یعنی جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔  قرآن کریم میں حجاج کیلئے احکامات میں ایک یہ بھی ہے کہ جب حج کا ارادہ کریں تو زادِ راہ ساتھ  لے لیں تاکہ مناسکِ حج خوش اسلوبی اور بے فکری سے ادا کرسکیں۔

وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ

زادہ راہ لے لو بے شک سے بہترین زاد راہ تقوی ہے

سعودی عرب کا موسم سخت گرم ہوتا ہے اور لاکھوں حاجیوں کی موجودگی سے حبس بھی شدید ہوجاتی ہے، پتلے کپڑے، پانی کی بوتل، سپرے والی بوتل، چھتری وغیرہ ضرور ساتھ رکھیں ۔ حج و عمرہ کے مناسک جسمانی مشقت کے متقاضی ہیں اس لیئے بے حد ضروری   ہے کہ آپ صحتمند ہوں۔ بہتر ہے کہ حج پہ روانگی سے قبل چہل قدمی اور ورزش کی روٹین بنا لیں تاکہ حج کے مناسک تندہی سے بغیر تھکاوٹ سرانجام دے سکیں۔   روانگی سے قبل  ڈاکٹر سے  چیک کروا  کر تسلی کرلیں  تاکہ دورانِ حج   بیماری سے بچا جاسکے اور تمام توجہ مناسک کی ادائیگی پر ہو۔

ا کثر لوگ واجبی سی  معلومات کتابچہ پڑھ یا لیکچر سن کرلیتے ہیں۔ وقتی طور پہ تو سمجھ آجاتا ہے لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو بھول جاتے ہیں۔ رہنمائی کیلئے ابتدائیہ میں درج  چند مستند کتابیں ہیں جن میں حج و عمرہ کے تمام مناسک کی تفصیل اور ضروری مسائل درج ہیں  تاکہ قدم بقدم کام آسکے۔

سب سے قیمتی زادِ راہ – صبر

چونکہ حج سفرِ شوق ہے اور اس سفر کا ہر قدم بذاتِ خود ایک منزل ہے۔ زادِ سفر میں  سب سے ضروری  “صبر” ہے۔ جلد بازی اور بے صبری صرف مشکلات پیدا کریں گی جبکہ صبر پسندی آسانیاں پیدا کرے گی۔  ‘جلدبازی’ کو گھر سے نکلتے وقت وہیں چھوڑ دیں اور صبر کو ساتھ لیکر چلیں۔ ائیرپورٹ کی لائن سے لیکر امیگریشن، بس میں بیٹھنے، جہاز، ہوٹل، حرم،طواف غرضیکہ کسی بھی جگہ پر جلدبازی نہ دکھائیں، انشاءاللہ آپ خود بھی پرسکون رہیں گے اور دیگر احباب کیلئے بھی تکلیف کا سبب نہیں بنیں گے۔ دوسری ضروری بات یہ کہ حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے،  اللہ تبارک و تعالیٰ بہترین میزبان ہے ۔ ہر ہر منزل پہ اللہ تعالیٰ سے آسانی طلب کریں۔ گھر سے نکلنے سے پہلے دو رکعت نماز حاجت کے پڑھ کر آسانی کیلئے دعا کریں اسی طرح ہراگلی منزل پہ جانے سے پہلے  دو رکعت نفل پڑھ کر آسانی کیلئے دعا مانگیں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کیسے کیسے آپ کیلئے آسانیاں پیدا فرماتے ہیں اور راہیں کھولتے ہیں۔ بزرگوں نے کسی بھی نئی منزل پہ جانے سے پہلے سورۃ الاسراء کی یہ آیت پڑھنے کی بھی تلقین فرمائی ہے؛

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا

اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو۔ اور اپنے ہاں سے زور وقوت کو میرا مددگار بنائیو

سفرِ حج، سفرِ آخرت کی مثال

علماء سفر حج کو سفرِ آخرت سے بھی تشبیہ دیتے ہیں کہ دوست احباب ایک منزل یعنی ائیر پورٹ تک چھوڑنے آتے ہیں آگے کی منزلیں اور سفر تنہا، جو زادِ راہ آپکا ہے وہی ساتھ جاتا ہے۔ سفر کی راحت یا کلفت جو بھی پیش آئے آپ تن تنہا ہی جھیلتے ہیں۔ اور لباس یعنی احرام بھی  کفن جیسی دو   ان سلی چادریں، میلا کچیلا حلیہ، انسان جو اپنی زیب و زینت بارے بہت شائق ہوتا ہے سب کچھ بھول بھال جاتا ہے۔ سفرِ آخرت بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ دوست احباب نہلا دھلا کر دو ان سلے کپڑوں کا لباس پہنا کر قبر  تک چھوڑ آئیں گے، وہاں سے آگے کی منزلیں اور سفر تنہا، جو زادِ رہا زندگی بھر اکٹھا کیا وہی ساتھ جائیگا، جو راحتیں یا مصیبتیں درپیش آئیں گی، تنہا ہی جھیلنی ہونگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سفرِ حج کی طرح ہمارا سفرِ آخرت بھی آسان اور عافیت والا کرے

ضروری سامان

قریباً  تمام ائیرلائنز کی حج پروازوں پر تیس کلو فی کس وزن لیجانے کی اجازت ہے اس سے زائد پر اضافی رقم ادا کرنی ہوگی۔  اسلئے غیر ضروری سامان ساتھ نہ لیکر جائیں۔ ایک لسٹ بنا لیں پھر اسکے مطابق سامان ساتھ رکھیں اور واپسی پر اضافی سامان جیسے کھجوریں، آبِ زم زم ، جائے نماز وغیرہ کیلئے  جگہ بنا کر جائیں۔اپنے بیگ پر اپنا نام، مکتب نمبر، بلڈنگ نمبر اور رابطہ نمبر ضرور تحریر کریں تاکہ گمشدگی کی صورت میں ڈھونڈنے میں آسانی رہے۔ اسکے علاوہ اپنے تمام بیگز پر کسی بھی ایک رنگ کے کپڑے سے گرہ لگا دیں تاکہ نشانی بھی رہے اور دور سے پہچاننے میں آسانی ہو۔ اکثر لوگ بیگ پہ اپنا پاکستان والا رابطہ نمبر لکھ دیتے ہیں جو سعودیہ میں بند ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ اپنے اقارب وغیرہ میں سے کسی کا نمبر لکھ دیں تاکہ بروقت رابط ممکن ہوسکے۔

یہاں سے حاجیوں کی اکثریت گورنمنٹ حج سکیم کے تحت جاتے ہیں۔ گورنمنٹ سکیم کے تحت ملنے والی رہائشگاہوں میں آٹومیٹک واشنگ مشینوں کی سہولت میسر ہے جس میں بغیر محنت صرف کیئے آپ روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر کپڑے دھو اور سکھا سکتے ہیں۔ اس لیئے زیادہ جوڑے رکھنے کی بجائے چار  پانچ جوڑے رکھ کر بھی گزارا کیا جاسکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہر قسم کا سامانِ ضرورت  تقریباً پاکستان والے نرخوں پر بآسانی دستیاب ہوتی ہیں، خوامخواہ وزن اٹھانے کی بجائے وہاں سے  جاکرخرید لیں۔

سعودی ریال کی خریداری کے وقت کم مالیت کے ریال جیسے ایک، دو یا دس ریال کے نوٹ  ضرور لیں۔

  • دو عدد احرام (ایک عمرہ اور ایک حج کیلئے)
  • ایک احرام بیلٹ (احتیاطاً، تاکہ احرام پہ باندھ کر بےفکر ہوجائیں)
  • چار جوڑے  کپڑے (مدینہ شریف اور احرام کے علاوہ پہننے کیلئے)
  • دو جوڑے ہوائی چپل (مستقل پہننے کیلئے)
  • طواف تسبیح  ایک عدد (سات دانوں والی تسبیح، طواف کے چکروں کی گنتی رکھنے کیلئے)
  • روزمرہ اور دیگر ضروری ادویات ڈاکٹری نسخہ کے ہمراہ
  • پانی کی بوتل (چھوٹی بوتل جو آسانی سے اٹھا کر چل سکے اور دورانِ طواف بھی ساتھ رکھ سکے)
  • چھوٹی چھتری (دھوپ سے بچاؤ کیلئے)
  • سفری بیگ (سامان رکھنے کیلئے)
  • ہینڈ بیگ جو ایامِ حج میں بھی کام آئے (چھوٹا بیگ جس میں ایک احرام، ایک کپڑوں کا جوڑا اور حج کے ایام کیلئے سامان رکھا جاسکے، ہلکا ہو)
  • ایک چھوٹا کپڑے کا بیگ چپل رکھنے کیلئے (احتیاطاً، ویسے شاپنگ بیگ بھی کام آتا ہے)
  • رمی کے کنکر رکھنے کیلئے کپڑے کا سلا ہوا چھوٹا تھیلا (کپڑے کا تھیلا یا پانی والی چھوٹی بوتل جس میں انچاس کنکریاں رکھ سکیں)
  • دھوپ والا چشمہ (دھوپ سے بچاؤ کیلئے، کوشش کریں پلاسٹک کا ہو تاکہ دھوپ میں زیادہ گرم نہ ہوجائے)
  • سپرے والی بوتل (طواف اور حج کے مناسک کے دوران خود اور دیگر حاجیوں پہ پانی کے چھڑکاؤ کیلئے، حبس میں بہترین اور ضروری)
  • کاغذات اور ریال رکھنے کیلئے ایک چھوٹا  گلے میں لٹکانے والا بیگ (چھوٹا بیگ جس میں دو تین خانے ہوں)
  • سر اور گردن ڈھانپنے کیلئے  بڑا رومال یا صافہ (دھوپ سے بچاؤ کیلئے، نہایت ضروری)

جو لوگ پرائیوٹ سکیم کے تحت جاتے ہیں وہ سہولیات کی معلومات لے کر جائیں اور اسی حساب سے سامان لیکر جائیں تاکہ زائد از ضرورت سامان اٹھانے اور وہاں اسکی نگرانی وغیرہ کرنے کی کوفت سے بچے رہیں۔

سعودی عرب آمد

پاکستانی حاجی عموماً جدہ جاتے ہیں اور پھر حج کے بعد مدینہ میں قیام کرتے ہیں۔ چونکہ دنیا بھر سے فلائٹس آرہی ہوتی ہیں اور بے پناہ رش کے باعث تاخیر ہونا معمول کی بات ہے۔ ایسے میں صبر و تحمل کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔ لازماً اپنے گروپ کے ہمراہ رہیں۔ادھر ادھر کی باتیں کرنے یا گپیں ہانکنے کی بجائے تسبیح وغیرہ پڑھتے رہیں۔چونکہ جدہ ائرپورٹ آمد کی صورت میں آپ نے لازماً احرام باندھا ہوگا تو باتھ روم استعمال کرتے وقت یا بیٹھتے وقت پاکی کا خاص خیال رکھیں۔ جدہ ائرپورٹ سے فراغت کے بعد  مکہ اپنی رہائشگاہ جانے میں کم از کم ڈیڑھ گھنٹا لگے گا، اس اثناء میں نیند کرلیں تاکہ پہلا عمرہ بالکل ہشاش بشاش طبیعت کیساتھ ادا کریں۔

عمرہ

مکہ اپنے ہوٹل پہنچ کر، تسلی سے سامان رکھیں، بھوک محسوس ہو تو کچھ کھا لیں، تازہ وضو کریں اور پھر عمرہ کی ادائیگی کیلئے حرم روانہ ہوں۔ یاد رکھیں، عمرہ جسمانی مشقت کا متقاضی ہے، سفر کرکے تھکے ہونے کی صورت میں تھوڑا آرام کرلیں تاکہ عمرے کے ارکان و مناسک پوری توجہ اور تندہی سے ادا کرسکیں۔ عمرے کا طریقہ تفصیلاً اگلے حصے میں بیان ہوا ہے۔

جب آپ پہلی مرتبہ مسجدالحرام میں داخل ہوں تو نظریں جھکا کر، نہایت ادب  اور خشوع و خضوع کیساتھ جائیں۔ بابِ عبدالعزیز اور بابِ فہد سے داخلے کی صورت میں دروازے سے ہی کعبہ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ جہاں کعبہ پہ پہلی نظر پڑے نہاہت ادب سے دم سادھ کے رک جائیں، یہ دعائیں مانگنے کا وقت ہے۔ پہلی نظر کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جو دعائیں مانگنی ہیں پہلے سے ذہن نشین کرلیں کیونکہ کعبہ پہ پہلی نظر پڑتے ہی اکثر فرطِ جذبات سے انسان سب بھول جاتا ہے اور اسی حسین نظارے میں محو ہوجاتا ہے۔وہاں جا کر اس نظم  “کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر، کیا چیز ہے دنیا بھول گیا۔۔” کی سمجھ آتی ہے اور عقیدت و محبت کے آنسو رواں ہوتے ہیں۔کعبہ پہ پہلی نظر والی کیفیت و حالت لفظوں کی قید سے باہر ہے، ہر انسان کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ کعبہ کو پہلی نظر دیکھ کر ایسا لگتا کہ کوئی نہایت عزیز بانہیں کھولے، گلے کو لگانے کیلئے بیتاب کھڑا ہے، اور کعبے سے رخصت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آنسو تھمتے نہیں اور دور تک جا کے بھی نظر مڑ مڑ کہ کعبے کو ڈھونڈتی ہے۔  اللہ ہمیں بار بار اپنے گھر بلائے اور یہ منظر دکھائے۔ آمین

عمرہ کا طریقہ

عمرہ نہایت ہی آسان ہے۔ عمرے کے دو فرائض عمرے کی نیت اور طواف کے سات چکر ہیں۔ عمرے کے واجبات میں طواف کے دو نفل، سعی کے سات چکر اور حلق یا قصر کروانا ہے۔

  • عمرے کی نیت – اے اللہ میں تیری خوشنودی کی خاطر عمرہ کی نیت کرتا ہوں۔ اسے میرے لئے آسان فرما اور قبول فرما
  • عمرے کا طواف: حرم میں داخل ہر کر طواف کی نیت کریں اور سات چکر پورے کریں
    • نیت: اے اللہ میں تیری رضا کی خاطر عمرہ کے طواف کی نیت کرتا ہوں۔ اسےآسان کردے اور قبول فرما۔
    • طواف کے چکر: نیت کرکے  چکر شروع کریں۔ ہر چکر  حجر اسود سے شروع ہوکر اسی پہ ختم ہوگا۔ سات چکر پورے کریں
    • طواف کے چکروں میں کوئی بھی دعا مانگی جاسکتی ہے۔ بس رکن یمانی سے حجر اسود تک رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پڑھیں۔ اکثر لوگ یاعزیز و یا غفار   مستقل  ملا کر پڑھتے ہیں، یہ عمل درست نہیں کہ آیتِ قرآنی میں اضافہ ہے۔
    • طواف کیلئے وضو کا حکم بالکل نماز جیسا ہے، وضو کے بغیر طواف نہیں ہوگا۔ اگر  چار چکروں کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو پانچویں چکر سے شروع کریں، اگر تیسرے چکر میں وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ پہلے چکر سے طواف شروع کریں۔
    • استلام:ہر چکر کے اختتام پہ حجراسود کا استلام کرنا یعنی ہاتھوں سے چومنا ہوگا۔نیت سے لے کر سعی شروع کرنے تک 9 استلام کرنے ہونگے
    • واجب طواف  – طواف کے چکر پورے کرکے مقامِ ابراہیم ،مطاف  یا پوری مسجد الحرام میں کہیں بھی دو نفل لازماً ادا کریں
  • سعی: واجب طواف پڑھ کر صفا اور مروا کے درمیان سات چکر پورے کریں، اسے سعی کہتے ہیں۔ واجب طواف ادا کرکے جب سعی کیلئے جائیں تو صفا پہاڑی پہ پہنچ کر جہاں سے کعبہ نظر آئے نواں استلام کرلیں پھر سعی شروع کریں۔ سعی کے لئے وضو کی شرط نہیں ہے، سعی بغیر وضو کے بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
  • سعی کی نیت: اے اللہ میں تیری رضا کی خاطر سعی کے سات چکروں کی نیت کرتا ہوں۔ اسےآسان کردے اور قبول فرما۔
  • پہلا چکر صفا سے مروہ  تک ہوگا۔ مروہ سے واپس صفا دوسرا چکر ۔ ایسے پہلا چکر صفا سے شروع اور آخری مروہ پہ ختم ہوگا۔
    • حلق / قصر: سعی کے بعد حضرات سے حلق یعنی ٹنڈ یا قصر یعنی بالے چھوٹے کروائیں ۔ اسکے بعد احرام کھول دیں، عمرہ مکمل ہوچکا۔
    • صدقہ: کوشش کریں عمرہ کے بعد حسبِ توفیق پانچ یا دس ریال صدقہ کردیں تاکہ اللہ عمرہ قبول اور غلطی کوتاہی درگزر فرمائے

ضروری اصطلاحات اور مسائل

مندرجہ ذیل چند ضروری مسائل ہیں جو عموماً حاجیوں کو درپیش آتے ہیں، ان سے آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ بلا عذر تمام مناسک ادا کرسکیں ۔

میقات: میقات وہ مقامات یا حدود ہیں جہاں سے آگے آفاقی کیلئے احرام باندھ کر جانا ضروری ہے  ورنہ دم واجب ہوگا۔  آفاقی وہ تمام افراد کہلاتے ہیں جو میقات کی حدود سے باہر کے مکین ہیں۔ مدینہ سے آتے ہوئے ذوالحلیفہ ہے، عراق کی طرف سے آنیوالوں کیلئے ذاتِ عراق میقات ہے۔  شام و مصر کی طرف سے آنیوالوں کیلئے جحفہ میقات ہے، نجد کے راستے سے آنیوالوں کیلئے قرن میقات ہے اور یمن و برصغیر کی طرف سے جانے والوں کیلئے یلملم میقات ہے۔ اگر حج یا عمرے کی بجائے کاروبار یا کسی اور غرض سے میقات سے آگے کا سفر کررہا ہے اور کعبہ حاضری کا ارادہ نہیں تو پھر احرام کی قید سے آزاد ہے۔ ورنہ دم بھی ادا کرنا ہوگا اور  نزدیکی حل سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ   بھی ادا کرنا ہوگا۔ میقات کے عمرے کی سعادت سے محرومی الگ۔

حل: حل وہ علاقہ ہے جو حدودِمیقات کے تو اندر ہے لیکن حدودِ حرم سے باہر ہے۔ جیسے جدہ ہے، طائف ہے ۔

حدودِ حرم: وہ تمام علاقہ جو حرام  میں شمار ہوتا ہو اور شکار وغیرہ کی ممانعت  میں آتا ہو۔ حدودِ حرم کی نشاندہی اولاً حضرت جبرئیل ؑ  نے حضرت ابراہیمؑ کو کی   اور حدود پر نشانات لگا دیئے ئے۔ بعد ازاں نبی اکرمﷺ نے ازسرِ نو حدودِ حرم کی نشاندہی کی اور نشانات لگوائے۔میقات سے داخل ہوجانے کے بعد مزید عمرہ کیلئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھنا ہوتا ہے، جیسے تنعیم میں مسجدِ عائشہ یا مسجدِ جعرانہ وغیرہ۔

احرام: حجاج عموماً کپڑے کی دو سفید  چادروں کے لباس کو احرام سمجھتے ہیں۔ احرام درحقیقت ایک کیفیت ہے، جو نیت سے شروع ہوتی ہے اور مناسکِ حج یا عمرہ کی مکمل ادائیگی پہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس میں بہت سی حلال باتیں یا چیزیں بھی وقتی طور پہ حرام ہوتی ہیں جن میں سلا ہوا لباس بھی ہے۔ اسی لیئے احرام کی حالت میں ان سلی  چادروں کا لباس زیب تن کیا جاتا ہے۔ حالتِ احرام میں سلا ہوا کپڑا، ایسی چپل جس سے پاؤں کی ابھری ہوئی ہڈی اور تلوہ چھپ جائے، سر کی ٹوپی، خوشبو کا استعمال، میل کو کھرچنا، شکار کرنا یا کسی بھی درجہ میں اسکی معاونت کرنا، کسی قسم کا گناہ، شہوت یا بے حیائی کی بات کرنا حتیٰ کہ اپنی منکوحہ سے بھی، حرام ہوتا ہے۔  خواتین کیلئے لباس کے علاوہ احرام کی باقی  پابندیاں وہی ہونگی بس چہرہ نہیں ڈھانپ سکتیں۔

طواف: کعبہ کے گرد سات چکروں لگانے کو طواف کہتے ہیں۔ایک چکر کو شوط کہتے ہیں۔

طوافِ قدوم: حدودِ حرم میں آکر پہلے طواف کو طوافِ قدوم  کہتے ہیں۔

استقبال: طواف کی نیت کرتے ہوئے  دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کو کعبہ کی طرف کرنا، جیسے نماز میں تکبیرِ اولیٰ ادا کرتے ہیں۔

رمل:  مرودوں کیلئے طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ کر چلنا  ہوتا ہے جسے رمل کہتے ہیں۔ رش یا کسی اور وجہ سے اگر نہ کرسکے تو کوئی پکڑ نہیں۔

اضطباع: طواف کے دوران مردوں کااحرام کی چادر کو داہنے کندھے کے نیچے سے گزار کر اسطرح اوڑھنا کہ کندھا ننگا ہوجائے۔ قابلِ غوربات یہ ہے کہ اضطباع کا حکم صرف طواف کے چکروں کیلئے ہے اسکے فوراً بعد کندھا ڈھانپنا چاہیئے ورنہ مکروہات میں سے ہے۔ اکثر احباب حج کے ایام میں بھی مستقل کندھا ننگا کئے رکھتے ہیں جو صریحاً غلط ہے۔

استلام: حجرِ اسود کو بوسہ دینا، ہاتھ سے چھونا یا دور سے ہاتھ اٹھا کر چومنا استلام کہلاتا ہے۔ طواف کے سات چکروں میں آٹھ بار استلام کرنا ہوتا ہے۔

واجب طواف: عمرہ یا نفلی، دونوں طوافوں کے بعد دو نفل واجب طواف کے لازمی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اگر مکرہ وقت ہے تو اسکے گزرنے کا انتظار کرے اور سکے بعد ادا کرلے۔ اسی طرح اگر دوطواف اکھٹے کرنا چاہے تو کرلے اور پھر دونوں کے نوافل علیحدہ علیحدہ ادا کرے، مگر کسی حال میں چھوٹ نہیں ہے انکی ادائیگی ضروری ہے۔

ملتزم: حجرِ اسود سے کعبہ کے دروازے تک کے حصے کو ملتزم کہتے ہیں۔ ملتزم کا لفظی مطلب لپٹنے یا چمٹنے کا ہے۔ نبیﷺ نے یہاں اپنا گال اور سینہ مبارک لگا کر ربِ کریم سے دعائیں مانگیں۔ یہاں مانگی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔

سعی: صفا اور مروہ کے دوران چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں، جو عمرہ کا واجب ہے۔ یہ حضرت ہاجرہؑ کے عمل کی یاد میں لگاتے ہیں۔

حلق / قصر : عمرہ کی مناسک کی ادائیگی کے بعد سر کے بال چھوٹے کروانے کو قصر اور استرے سے مکمل صاف کروانے کو حلق کہتے ہیں۔

تحیتہ مسجد الحرام : کسی بھی مسجد میں جائیں اور فرض نماز میں کچھ وقت ہو تو دو نفل اس مسجد واسطے پڑھنا سنت ہے جسے تحیتہ المسجد کہتے ہیں۔ مسجد حرام کا تحیتہ المسجد نفل نہیں بلکہ طواف ہے۔ جب بھی حرم جائے تو اولاً طواف کرے، اگر فرض نماز کا وقت ہو تو بہلے نماز پڑھ لے اور بعد طواف کرے۔

وقوفِ عرفات: وقوفِ عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر یہ رہ جائے تو حج نہیں ہوتا۔ وقوف کا مطلب ٹھہرنا ہے۔ وقوفِ عرفات یعنی نو ذوالحج یومِ عرفہ کو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہوکر اللہ کے حضور دعائیں اور التجائیں کرنا۔

وقوفِ مزدلفہ :دس  ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک رب کے حضور دعائیں اور التجائیں کرنا واجب ہے، اسے وقوفِ مزدلفہ کہتے ہیں۔

رمی جمرات : رمی کا مطلب کنکریاں مارنا اور جمرہ شیطان کو کہتے ہیں۔ دس  ذوالحج سے تیرہ ذوالحج تک تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں فی شیطان مارتے ہیں۔ یہ حج کا واجب ہے، اگر رہ جائے تو دم واجب ہوتا ہے۔

ہدی: یعنی قربانی کا جانور

دمِ شکر: یعنی حج کی قربانی۔ حجاج پر دمِ شکر واجب ہے، اگر اسکی استطاعت نہ رکھتا ہو تو قران کے حکم کے مطابق دس روزے رکھنے ہونگے، تین مکہ میں اور سات واپس اپنے وطن جاکر۔طوافِ زیارہ: دس ذوالحج کو رمی، قربانی اور حلق کے بعد کعبہ کا طواف کرنا طوافِ زیارۃ کہلاتا ہے اور یہ حج کے فرائض میں سے ہے۔طوافِ وداع: حج کا آخری واجب ہے۔ حج کے بعد جب بھی مکہ سے اپنے وطن جانے کیلئے روانہ ہونے سے پہلے آخری طواف کرے گا اسکی نیت طوافِ وداع کی کرے گا۔

مکہ رہائش کے دوران

ہر قسم کی حج سکیم میں مکہ رہائش کے دن سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔  مکہ کا موسم گرم مرطوب ہے اور حاجیوں کی بھیڑ کے باعث حبس بھی شدید ہوجاتی ہے۔  مطاف کے علاوہ تقریباً  ہر جگہ اے سی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اکثر حاجی حضرات شدید گرمی سے آکر  اور پسینے کی حالت میں  اے سی کے سامنے  کھڑے ہوجاتے ہیں جس سے گرم سرد ہوکر بیمار ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اسکے علاوہ شدید گرمی اور پسینے کی حالت میں یخ بستہ پانی پینا بھی بیماری کا اندیشہ ہے۔  سعودی عرب میں باتھ روم ،  نہانے   اور وضو کیلئے گرم پانی آتا ہے، شروع شروع میں عادت نہیں ہوتی تو عجیب لگتا  ہے۔ کوشش کریں انتہائی باریک کپڑے زیب تن کریں تاکہ گرمی اور حبس کی شدت کا اثر کسی قدر زائل ہوسکے۔ باہر آتے جاتے دھوپ والا چشمہ ضرور لگائیں اور سر پہ رومال یا صافہ ضرور رکھیں تاکہ سن سٹروک سے بچے رہیں اور بوقتِ ضرورت اس سے جائے نماز کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔

ضروری باتیں

سب سے پہلے یہ مکہ مکرمہ، خصوصاً حرم میں ہر بات، عمل اور معاملہ میں ادب کو ضرور ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ہمارے یہاں سے لوگ چپلیں ہاتھ میں اٹھائے طواف کررہے ہوتے ہیں، طواف کرتے کرتے موبائل فون پہ بات کرتے یا ساتھیوں سے گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ اعمال سے زیادہ فکر لمحہ ب لمحہ موبائل سے اسکی ویڈیو یا تصویر بنانے کی رہتی ہے۔ اور سیلفی کلچر سے تو اللہ کی پناہ۔ لوگوں کا طواف خراب کرکے مختلف اینگلز سے سیلفیاں لے لے کر احباب کو بھجوا رہے ہوتے ہیں۔ مقامِ عبرت ہے، کعبہ کا منظر آنکھوں میں محفوظ کرلیں کبھی ڈیلیٹ نہیں ہوگا۔ کعبہ کی تصویر بنانا  غلط نہیں مگر جس انداز سے بے ادبی ہورہی ہوتی ہے الامان الحفیظ۔ اس کی خصوصی احتیاط کریں۔ ورنہ  معاذ اللہ یہ نہ ہو کہ نیکیاں کمانے گئے تھے اور جو ہاتھ میں تھیں وہ بھی گنوا آئے اور بے ادبی کا وبال الگ۔

اپنی رہائش گاہ سے حرم کا راستہ سمجھ لیں، علاقے، سڑک کا نام وغیرہ ذہن نشین کرلیں، ہوٹل کا کارڈ ضرور ہمراہ رکھیں تاکہ پتہ بھول جانے کی صورت میں کسی کو دکھا کر راستہ معلوم کرلیں۔ حرم کے 126 سے زائد دروازے ہیں، آپ کی رہائش والے راستے پر جو بھی دروازہ آتا ہو اسکا نام اور نمبر ضرور یاد رکھیں کیونکہ حرم کا نقشہ گولائی میں ہے اور تقریباً تمام دروازے اندر سے ایک سے ہیں۔دیگر احباب یا اپنے گروپ کے دیگر حاجیوں کے ساتھ آنا جانا کریں تاکہ کسی ایک کو راستہ بھول جائے تو دوسرا رہنمائی کرسکے اور اعمال و عبادات میں بھی ساتھ بنا رہے تاکہ ایک دوسرے کو ترغیب دیتے رہیں۔ اسکے علاوہ گروپ کے دیگر احباب کے نمبرز ضرور اپنے پاس نوٹ رکھیں بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی نوٹ کروا دیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں رابطہ ممکن ہوسکے۔ عموماً ائرپورٹ پہ سم مل جاتی ہے ورنہ بازار میں جابجا سم بیچنے والے مل جاتے ہیں۔ وہاں وائبر، سکائپ، وٹس ایپ، فیس بک مسنجر نہیں چلتا، بلکہ انٹرنیٹ کی کال کیلئے ایمو چلتا ہے وہی ڈانلوڈ کرلیں اور گھر والوں کو بھی بتا دیں۔ اسکے علاوہ پہلے دن جا کر اطلاع کردیں اور پھر روٹین کے حساب سے بتا دیں کہ پاکستانی فلاں فلاں وقت بات ہوسکتی ہے۔ کوشش کریں زیادہ وقت لمبی باتیں کرتے دنیا جہاں کی خبریں لینے کی بجائے عبادات میں صرف کریں کہ وقت بہت کم ہے اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی بنائیں۔

اس کے علاوہ مسجد حرم کی بہت سی ویڈیوز یوٹیوب پہ موجود ہیں جن سے راستوں اور مسجد حرم کے نقشے بارے رہنمائی اور آگاہی لی جاسکتی ہے۔ سب سے زیادہ شکایت لوگوں کو چپلیں گم جانے کی ہوتی ہے جس میں درحقیقت زیادہ تر قصور خود حجاجِ کرام کا ہی ہوتا ہے۔  حرم کے دروازے سے داخل ہو کر دائیں بائیں کسی بھی جوتوں والے ریک میں جوتا رکھیں اور اسکا نمبر نوٹ کرلیں۔ کوشش کریں کہ جس ریک میں جوتا رکھیں وہ بالکل سامنے کا نہ ہو۔ کیونکہ اکثر لوگ بالکل سامنے کے ریک میں جوتا رکھتے ہیں اور بعد میں ڈھونڈنے کی غرض سے دیگر احباب کے جوتے نیچے یاسائیڈ پر پھینک دیتے ہیں جو صفائی کا عملہ اٹھا کر کوڑے دان وغیرہ میں پھینک دیتے ہیں۔ایک آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے کہ جوتا رکھتے وقت صدقِ دل سے نیت اور دعا کریں کہ اے اللہ میرے اس سامان کی حفاظت فرمانا۔

چونکہ حج کے دنوں میں رش کافی ہوتا ہے  تو حرم خصوصاً مطاف میں جگہ ملنا مشکل ہوتی ہے ایسے میں کھانے یا غسلخانے کیلئے باہر جانا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ کوشش کریں حرم جاتے ہوئے دستی بیگ میں کوئی پھل ، بسکٹ وغیرہ رکھ لیں  تاکہ بھوک لگے تو کھا سکیں۔ حرم میں جگہ جگہ آبِ زم زم کے کولر رکھے ہیں، جی بھر بھر پئیں نہ بھوک کا احساس ہوگا نہ ہی غسلخانے کی حاجت۔  اسکے علاوہ مطاف کی تمام سیڑھیوں کے نیچے وضو خانے ہیں جب بھی وضو تازہ کرنا ہو وہیں سے کرلیں۔

ایک انتہائی ضروری امر یہ ہے کہ عموماً ہمارے حجاج حرم میں سیکورٹی اہلکاروں سے تعاون نہیں کرتے، لائن توڑتے ہیں، دھکم پیل کرتے ہیں جو انتہائی غلط حرکت ہے۔ اس سے حد درجہ اجتناب برتنا چاہیئے۔  اسکے علاوہ مطاف میں نماز کے وقت سیکورٹی اہلکار اور خدام خواتین کو مردوں والی صفوں سے خواتین کی مخصوص صفوں کی جانب جانے پر اصرار کرتے ہیں جس پہ بہت سی خواتین کان نہیں دھرتیں اور بہت فخر محسوس کرتی ہیں، یہ مسئلہ کسی مولوی کا  بتایا نہیں، شریعتِ محمدیﷺ میں یہ حکم ہے کہ مرد و خواتین ایک صف میں نماز ادا نہ کریں، یقیناً اسکی کوئی مصلحت ہوگی۔ خواتین کے اس عمل سے باقی حجاج کو پریشانی ہوتی ہے اور لوگ صفیں پھلانگ کر آگے پیچھے کی صفوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے میں ان خواتین کے ساتھ آئے مرد حضرات پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خواتین کو بہت پیار اور اطمینان سے مسئلہ سے آگاہ کریں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ انکی خواتین نماز کے اوقات میں خواتین کیلئے مختص صفوں میں ہی نماز ادا کریں۔

حج مالی اور جسمانی مشقت کا متقاضی ہے، تھکن، آرام کا وقت اور موقع نہ ملنا اور بہت زیادہ چلنے کے باعث اکثر لوگ حج کے ایام میں بیمار پڑجاتے ہیں۔ اسلئے حج سے چند روز قبل سے اپنے آرام اور صحت کا بہت زیادہ خیال رکھیں تاکہ حج کے پانچ ایام میں آپ مکمل تندرست و توانا ہوں اور تمام مناسکِ حج کو تندہی اور خوش اصلوبی سے انجام دے سکیں۔

روزمرہ معمولات

مکہ رہائش کے دوران کوشش کریں زیادہ سے زیادہ وقت حرم پاک میں گزرے۔ گو ہوٹل یا رہائش کی نزدیکی مسجد میں بھی ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہوگا مگر جو لطف خانہ کعبہ کے سامنے نماز ادا کرنے یا تلاوت کا ہے وہ کسی بھی اور جگہ نہیں اور حرمِ کعبہ کی جماعت کا ثواب اور برکتیں بھی کیا شمار۔ علاوہ ازیں، طواف ایسی نفلی عبادت ہے جو حرم پاک کے علاوہ دنیا میں کسی بھی جگہ ادا نہیں ہوسکتی اور مکہ شہر میں رہائش کے دوران اس سے بہتر نفلی عبادت کوئی نہیں۔ اللہ نے آپ  کوصحت و تندرستی سے نوازا  ہے تو کوشش کریں ہر نماز کے بعد یا پہلے طواف ضرور کریں۔  جب طواف نہ بھی کررہے ہوں تو کعبہ کے سامنے بیٹھ کر دیکھتے رہنا بھی عبادت ہے۔  حرم میں ہر نماز کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے، کوشش کریں نمازِ جنازہ کا طریقہ اور مسائل کی آگاہی حاصل کرکے جائیں تاکہ اس فرضِ کفایہ کا ثواب حاصل کرسکیں۔

اسکے علاوہ حج پہ کوشش کریں دیگر حجاج کرام کا اکرام اور ہر ممکن امداد کریں۔ جیسے حرم  جاتے ہوئے حسبِ توفیق پھل ، جوس یا بسکٹ وغیرہ خرید لیں، حرم کے اندر اور باہر بہت سے ایسے حجاج مل جائیں گے جو صبح سے شام تک فقط ایک بار کھانا کھاتے ہیں ، کھانا کھلانا ویسے بھی بہترین صدقہ ہے اور حاجی کو کھانا کھلانے کی تلقین تو احادیث میں بھی آئی ہے۔ اس کے علاوہ تین چار ریال کا مشکیزہ قریبی دکانوں سے مل جاتا ہے،  اس کو آبِ زم زم سے بھر کر ، آبِ زم زم والے  کولرز سے ڈسپوزیبل گلاس لے کر، طواف کرتے حجاج کو پیش  کردیں۔ عبادت کی جزا ثواب ہے اور خدمت  کی جزا اللہ سبحان و تعالیٰ۔

عموماً  عصر اور مغرب کی نمازوں کے بعد طواف کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے  اور مطاف کی بجائے اوپر کی منزلوں یا چھت پہ جگہ ملتی ہے۔ عشاء کے بیس تیس منٹ بعد سے البتہ بھیڑ چھٹنا شروع ہوجاتی ہے، موسم بھی معتدل ہوتا ہے تو طواف کرنے میں آسانی رہتی ہے۔  بہتر ہے کہ ایک طواف عشاء کے بعد کریں، پھر کھانا کھا کر تھوڑا آرام کریں اور تہجد کے وقت حرم میں آجائیں، تسلی سے طواف کریں اور فجر تک تلاوت کرلیں۔ ایک طواف فجر کے بعد کریں اور اشراق پڑھ کر ناشتہ وغیرہ کرکے آرام کرلیں۔ ظہر تقریباً ساڑھے بارہ پونے ایک بجے ہوتی ہے اور حرم کے اندر نماز ادا کرنے کیلئے آپ کو کم از کم بارہ سوا بارہ تک حرم پہنچنا ہوتا ہے وگرنہ باہر سڑک پہ نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔  ظہر سے عصر کے دوران تلاوت / دوپہر کا کھانا وغیرہ کھائیں اور عصر سے پہلے پہلے حرم واپس آجائیں۔ عصر کے فوراً بعد بھیڑ زیادہ ہونے سے پہلے پہلے طواف کرلیں،  عصر سے مغر ب کے دوران دو طواف بآسانی کیئے جاسکتے ہیں، اسی طرح مغرب سے عشاء کے دوران ایک طواف۔ جمعہ والے دن چونکہ مقامی لوگ بھی کثیر تعداد میں آتے ہیں اسلیئے صبح آٹھ نو بجے تک حرم پہنچنا ضروری ہے ورنہ جگہ ملنا مشکل ہوتی ہے۔

عمرہ و دیگر عبادات

عمرہ کرنا  ہو تو بہترین وقت عشاء کے بعد کا ہے۔ بابِ عبداللہ کے سامنے سڑک سے مسجدِ عائشہ تک جانے اور واپس آنے کیلئے ٹیکسی کرلیں  جو فی سواری دو سے پانچ ریال تک لیتی ہے، جعرانہ جانا ہو تو بھی وہیں سے ٹیکسی کار ملتی ہے۔  اسکے علاوہ حجرِاسود کو بوسہ دینے یا حطیم میں نوافل کی ادائیگی کیلئے بھی رات عشاء کے بعد سے تہجد تک کا وقت بہترین ہوتا ہے۔ بھیڑ کم ہوتی ہے تو دھکم پیل کا خدشہ کم اور مواقع زیادہ۔ بہتر ہے کہ دو نفل صلوٰۃ حاجت کے ادا کریں، اللہ سے دعا کریں اور حجر اسود والی لائن میں لگ جائیں، جلد یا بدیر انشاءاللہ باری آجائیگی۔ اپنے تئیں کوشش رکھیں کہ کسی  کو بھی دھکا نہ دیں۔ حطیم میں داخل ہوتے وقت بھی لوگ بلاوجہ ہاتھا پائی شروع کردیتے ہیں۔ بہت ادب اور احترم کیساتھ حطیم میں داخل ہوں اور جہاں جگہ ملے نفل ادا کرکے دوسروں کو موقع دیں۔

مکہ میں ہر نیکی کا اجر ایک لاکھ گنہ ہوتا ہے اسلئے قیام کے دوران کوشش کریں کم از کم ایک مرتبہ ختم قرآن شریف ضرور  کریں اور ممکن ہو تو حج کے ایام چھوڑ کر جتنے ہوسکیں روزے رکھیں۔ صدقہ حسبِ توفیق کریں، کوشش کریں کہ بھیک مانگنے والوں کی بجائے حرم کے خدام کو صدقہ کی رقم دی جائے۔ پندرہ ریال ہدیہ دے کر قرآنِ کریم حاصل کریں یا تیس ریال ہدیہ کے عوض بیٹھ کر نماز پرھنے کیلئے کرسی لیں  اور حرم میں رکھ چھوڑیں جتنے لوگ پڑھیں گے آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہوگا۔جیسے مسجدِ الحرام میں ہر نیکی کا ثواب ایک لاکھ گنہ بڑھ جاتا ہے ایسے ہی گناہ کا وبال بھی ایک لاکھ گناہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیئے بے انتہا احتیاط کریں کہ بھول سے بھی کوئی گناہ یا خلافِ شریعت عمل سرزد نہ ہو۔ خصوصاً مقاماتِ مقدسہ یا وہاں کی آب و ہوا ، لوگوں یا  انکی بود و باش کے بارے کوئی بھی ایسی بات نہ کی جائے جو  بے ادبی کے زمرے میں آئے اور پکڑ ہو۔

علماء و صلحاء کے اقوال کے مطابق مندرجہ ذیل مقامات پہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔بیت اللہ پہ پہلی نظر کیساتھ، طواف کے دوران، ملتزم پر، میزابِ رحمت کے نیچے، کعبہ کے اندر، چاہِ زم زم پر، صفا اور مروہ پر، اور دورانِ سعی صفا مروہ کے درمیان، مقامِ ابراہیم پر،منیٰ میں،  میدانِ عرفات میں، مزدلفہ میں، رمی جمرات کے وقت، جمرات کے بعد، رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان، حطیم میں۔

مکہ کی زیارتِ مقدسہ

 مکہ کی زیارتوں میں جنت المعلیٰ، مسجدِ جن اور وہ مکان جہاں آپُ کی پیدائش ہوئی وہ مسجد الحرام کے بالکل قریب واقع ہیں۔ کسی بھی نماز کے بعد پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔اسکے علاوہ قرب و جوار میں جبل ثور، جبل نور (غارِ حرا) میدانِ منیٰ ، مسجدِ خیف، جمرات،  میدانِ مزدلفہ  ، مسجد مشائرالحرام، میدانِ عرفات، مسجد نمرہ، جبل الرحمہ  وغیرہ ہیں۔ غارِ حرا اور غارِ ثور کے علاوہ تمام مقامات صرف حج کے ایام میں عوام کیلئے کھولے جاتے ہیں۔

آبِ زم زم کی فضیلت، آداب  و احکام

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آبِ زم زم کو جس نیت سے پیو اسی کیلئے کافی ہے۔ یعنی پیاس بجھانے کی نیت سے پیو تو پیاس بجھے گی، بھوک مٹانے کی نیت سے پیو تو بھوک مٹے گی، کسی بیماری سے شفا کی نیت سے پیو تو انشاءاللہ شفا ملے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ آبِ زم زم پیتے ہوئے دعا مانگتے “اے اللہ ، میں قیامت کے دن کی پیاس بجھانے کیلئے پیتا ہوں”۔

حجتہ الوداع کے موقع پر حضورِ اکرمﷺ نے آبِ زم زم  پیا، پھر اپنی آنکھوں پہ ڈالا، پھردوبارہ پیا اور  اپنے اوپر ڈالا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے  کہ آبِ زم زم سے بھرا ہوا ڈول دیر تک منہ سے لگا کر پیا، الحمدللہ کہا،پھر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا اور الحمدللہ کہا اور فرمایا ہم میں اور منافقین میں یہی فرق ہے کہ وہ آبِ زم زم کو سیر ہو کر نہیں پیتے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا کہ ‘نیک لوگوں کے مصلے پہ نماز پڑھا کرو اور نیک لوگوں کے پانی سے پانی پیا کرو’ صحابہ نے عرض کی نیک لوگوں کا مصلہ کونسا ہے تو حضورﷺ نے فرمایا میزابِ رحمت کے نیچے اور نیک لوگوں کا پانی آبِ زم زم۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ آبِ زم زم ساتھ لے جایا کرتے تھے، بیماروں پہ چھڑکتے تھے۔ بلکہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی تحنیک بھی آبِ زم زم سے فرمائی۔ مکہ میں بہترین مشروب آبِ زم زم ہے ۔ پاکستان میں ہمیں آبِ زم زم گھونٹ گھونٹ ہی نصیب ہوتا ہے سو وہاں جی بھر بھر پئیں، سر پہ ڈالیں ہتھیلیاں بھگو کر جسم پہ بھی ملیں ۔ بس ایک احتیاط لازم ہے کہ آبِ زم زم ضائع نہ کریں اور نہ ہی اس کی بے حرمتی کریں۔

آبِ زم زم پینے کی دعا

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا

اے اللہ میں تجھ سے نفع والے علم ، حلال رزق اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جو تیرے یہاں مقبول ہو

مطاف میں لوگ پانی والے کولرز سے اپنی بوتلیں بھرنے لگ جاتے ہیں جس سے باقی لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح مطاف میں لوگ گلاسوں میں پانی بھر بھر کر اپنے اوپر ڈالنا شروع کردیتے ہیں جس سے پھلسن ہوجاتی ہے۔ اس معاملے میں احتیاط کریں۔ سیڑھیوں کے نیچے نلکے لگے ہیں وہاں جاکر بوتلیں بھی بھرلیں، اپنے اوپر بھی آبِ زمزم ڈال لیں ۔ یہ خیال رہے کہ ضائع بھی نہ ہو اور اسکی بے حرمتی بھی نہ ہو۔ قبلہ رو ہو کر تسلی سے پیئں اور دعائیں مانگیں۔ صحت کی دعائیں، ایمان کی سلامتی کی دعائیں، دنیا و آخرت میں کامیابی کی دعائیں وغیرہ وغیرہ۔

 مکہ کی سوغاتیں

سعودی عرب کی بہترین سوغاتیں مکہ سے آبِ زم زم اور مدینہ کی کھجوریں ہیں۔ باقی تما م ٹوپیاں تسبیح جائے نماز اور کھلونے وغیرہ چائنہ انڈیاترکی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں۔ مکہ میں الصفویٰ ٹاور جو بابِ عبدالعزیز کے سامنے ہے کی بیسمنٹ اور اجیاد روڈ پرہر مال دو/تین اور پانچ ریال والی  دکانوں سے یہ چیزیں ارزاں نرخوں پہ مل جاتی ہیں اسکے علاوہ شاہراہِ ابراہیم خلیل پہ سستے بازار میں بھی کافی ورائٹی ہوتی ہے۔ تمام دکاندار اورعملہ اردو بخوبی سمجھتا ہے اور وہاں بھاؤ تاؤ بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے۔

کوشش کریں کہ شاپنگ وغیرہ حج کے ایام کے بعد کریں۔ حاجیوں  کی روانگی شروع ہوچکی ہوتی ہے اور دکاندار اچھا خاصا منافع کما چکے ہوتے ہیں تو گاہک کی مرضی کے دام پر بھی فروخت کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔

مناسکِ حج اور ان کی ادائیگی

حج نو ذوالحج کو ہوتا، ویسے تو ذوالحج کے پہلے دس دن ہی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن پاک کی سورۃ الفجر میں اللہ تعالیٰ ذوالحج کے پہلے دس دن اور دس راتوں  کی اور دس ذوالحج کی فجر کی قسم اٹھاتے ہیں۔ ذوالحج کے پہلے دس دن کی عبادات اللہ تعالیٰ کے یہاں نہایت اہمیت کے حامل ہوتی ہیں، خصوصاً ان دنوں صدقہ کرنا اور  روزے رکھنا (جو لوگ حج نہ کر رہے ہوں وہ نوذوالحج کا روزہ ضرور رکھیں، روایت میں آتا ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اسکے علاوہ جو غیر حاجی قربانی کا ارادہ رکھتے ہوں وہ بھی یکم ذوالحج سے دس ذوالحج تک ناخن، بال وغیرہ مت تراشیں  اور حاجیوں کی نقل کریں، یہ عمل مستحب ہے اور اسکا ثواب ہے)۔ حج درحقیقت پانچ روز کا ہوتا ہے جو آٹھ ذوالحج سے بارہ یا تیرہ ذوالحج تک ہوتا ہے۔ حج کو جدوجہد اور مشقت طلب عبادت انہی پانچ ایام کی وجہ سے کہا گیا ہے۔حج کے پانچوں ایام میں صرف فرض نمازیں  پڑھنی اور دعا ئیں  مانگنی ہیں۔

‘اے اللہ، جو خیریں، برکتیں بھلائیاں نب اکرم ﷺ نے مانگیں، وہ عطا فرما، جن جن شرور اور آفتوں آزمائشوں سے نبیﷺ نے پناہ مانگی، ان سے پناہ نصیب فرما’

حج سے متعلق احکامات اور ترتیب اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی سورۃ  البقرۃ کی آیت نمبر 195 سے آیت نمبر 203 تک بیان کیئے ہیں۔  حج کی تین اقسام حج افراد، حجِ قران اور حج تمتع۔ حج کے پانچ دنوں کے ارکان سب میں وہی ہیں بس طوافِ زیارت میں حجِ قران والے سعی نہیں کرتے۔

حج کے فرائض، واجب اور سنتیں

حج کے تین فرائض (نیت و احرام، وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارۃ) ہیں۔ چھ واجب ( قیامِ منیٰ، وقوفِ مزدلفہ، رمی جمرات، قربانی، حلق اور طوافِ وداع ) ہیں۔ حج کی سنتیں یہ ہیں: طوافِ قدوم کرنا، طوافِ قدوم میں رمل کرنا اگر نہیں کیا تو طوافِ زیارۃ  یا طوافِ وداع میں کرنا ہوگا۔ امام کا تین مقامات ست ذوالحج کو مکہ، نو ذوالحج کو عرفات اور گیارہ ذوالحج کو منیٰ میں خطبہ پڑھنا، نویں ذوالحج کو رات منیٰ میں قیام کرنا، طلوعِ آفتاب کے بعدنو ذوالحج کا عرفات جانا، عرفات سے امام کے نکلنے کے بعد نکلنا، عرفات سے نکل کر رات مزدلفہ میں ٹھہرنا، عرفات میں غسل کرنا، ایامِ منیٰ میں رات منیٰ میں قیام کرنا، منیٰ سے واپسی پر محسب میں ٹھہرنا گرچہ ایک لحظہ کو سہی۔

حاجی کا ترانہ

تلبیہ حاجی کا ترانہ ہے۔ تمام حجاجِ کرام کو چاہیئے کہ تلبیہ کو خوب اچھی طرح یاد کرلیں اور آڈیو کلپ بھی موبائل میں سیو کرلیں کیونکہ حج کے دوران مستقل پڑھنا ہے۔ کچھ حجاج شرماتے ہوئے تلبیہ یا تو بالکل نہیں پڑھتے یا دل میں پڑھتے ہیں، نبیﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ تلبیہ اونچی آواز میں پڑھنا چاہیئے۔ لوگوں کی فکر چھوڑیئے اور اللہ کی خوشنودی کی فکر کیجئے۔تلبیہ دراصل بندے کا اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری لگانے کا طریقہ ہے۔ بندہ اپنے رب کی پاکی اور بزرگی بیان کرتے ہوئے اقرار کرتا ہے کہ اے میرے رب میں حاضر ہوگیا، بے شک تو وحدہُ لاشریک ہے اور بے نیاز ہے میں دنیا کے لعو و لہب چھوڑ کر تیری رضا کی خاطر تیرے در پہ حاضر ہوگیا ہوں۔

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ… لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ … إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ

حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں بے شک تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہو، تمام تعریفیں تیرے ہی لیئے ہیں، تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، اور تیری ہی بادشاہی سدا ہے، تیرا کوئی شریک، کوئی ہمسر نہیں۔

تلبیہ آٹھ  ذوالحج سے دس ذوالحج کو رمی جمرات سے پہلے ہر قدم پہ پڑھنا ہے۔ یہی سفر کی دعا ہے یہی کھانے کی، چڑھائی چڑھنے کی اور اترنے کی، سونے کی اور جاگنے کی۔ غرض حاجی نے تلبیہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھنا۔ رمی جمرات سے پہلے تلبیہ پڑھنا موقوف کردیے اور تیرہ  ذوالحج تک تکبیر تشریق پڑھنی ہے۔

اللہ اکبر اللہ اکبرلا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد

اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں

حج کے احکامات

حج اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی دعوت ہے، قربِ الہیٰ کا زینہ ہے۔ حج حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے ایثار و قربانی کی یاد ہے۔ حج کی اصل بھی ایثار و قربانی ہے اور اپنی خواہش کو اپنے رب کی مرضی پہ قربان کردینا۔ قرآنِ  کریم میں آدابِ حج سے متعلق تین احکامات بہت واضح بیان کیئے ہیں اور انکی تشریح حدیثِ نبویﷺ میں بھی ملتی ہے، سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ

حج میں کوئی بے حیائی نہ ہو، کوئی گناہ نہ ہو اور کوئی لڑائی نہ ہو

عموماً بھی اور خاص طور سے حج کے ایام میں کوشش کریں کہ بے حیائی ،لڑائی جھگڑے اور گناہوں سے بچ کر رہیں۔ نبیﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق جس نے ایسے حج کیا کہ اس میں کوئی بے حیائی کی بات نہیں کی، گناہوں سے بچا رہا اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا تو وہ ایسا ہوگیا جیسے آج ہی اسکی ماں نے جنم دیا ہو، یعنی گزشتہ زندگی کے تمام گناہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے معاف فرما دیں گے۔ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ صحابہ نے آپﷺ سے پوچھا کہ بہترین حج کونسا ہے، آپﷺ نے فرمایا جس میں حاجیوں کو خوب کھلانا ہو، کثرت سے سلام کرنا،  لبیک  اونچی آواز میں پڑھنا اور خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہو۔

دنیا بھر سے تقریباً   35 لاکھ حجاج نے ایک ہی وقت میں ایک ہی علاقہ یا میدان میں مناسکِ حج ادا کرنے ہیں۔ موسمی حالات، بھیڑ، آرام کیلئے وقت نہ ملنا، دھکم پیل، مقررہ وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی، کھانے پینے کی روٹین نہ رہنا اور میلے کچیلے احرام میں گرمی اور پسینے کی بدبو۔ اللہ تعالیٰ کو حاجی میلے کچیلے ہی پسند ہیں کہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ کر صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلے میدان میں آٹھہرتے ہیں۔ یہ تمام مشکل حالات ہیں، ان میں مناسک تندہی اور خوش اصلوبی سے ادا کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ تھوڑا فاصلہ بھی بہت دیر میں طے ہوتا ہے۔ ایسے میں لڑائی جھگڑے بحث مباحثے کا احتمال و خدشہ رہتا ہے۔ آپ نے کسی صورت جھگڑا نہیں کرنا، کوئی زیادتی بھی کرے تو برداشت کرنا ہے کہ یہی حج ہے اور اسی سے بچنے کی تاکید قرآن و حدیث میں کی گئی ہے۔

ایامِ حج کیلئے سامانِ ضرورت

سات  یا آٹھ  ذوالحج کو حاجی اپنی اپنی رہائشگاہوں سے حج کا احرام باندھ کر نکلیں گے،  پھر بارہ  یا تیرہ  ذوالحج کو واپسی ہوگی۔  اس دوران ضرورت کی اشیاء ہینڈ بیگ میں رکھ کر ساتھ لے جائیں تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ حج کے دنوں میں ضروری سامان ایک عدد احرام کی چادر تاکہ اگر جو احرام پہنا ہوا اسکی ایک چادر ناپاک ہوجائے تو کام آسکے، ایک جوڑا ہوائی چپل، چھتری، پانی کی بوتل، مزدلفہ قیام کیلئے چٹائی اور سرہانہ، خشک میوہ جات وغیرہ، ایک جوڑا کپڑے، صابن، خوشبو (احرام کھولنے کے بعد استعمال کیلئے)، موبائل چارجر،  دھوپ والا چشمہ، قرآن پاک وغیرہ ۔

ذیل میں آٹھ  ذوالحج سے تیرہ ذوالحج تک ہر روز کے اعمال کا حال ہے اور فرض، واجب بھی واضح کردیا گیا ہے۔

  حج کا پہلا دن:  آٹھ ذوالحج

حج کا احرام و نیت

حجاجِ کرام مکہ میں اپنی رہائشگاہوں سے احرام باندھ کر حج کی نیت کرتے ہیں اور منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ احرام باندھ کر (اگر مکروہ وقت نہ ہو تو) دو نفل ادا کریں اور سلام پھیر کر مرد حضرات تین مرتبہ نسبتاً اونچی آواز میں اور خواتین دھیمی آواز میں تلبیہ پٹرھیں اور “اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، اسے میرے لئے آسان بنا اور قبول فرما”کہہ کر حج کی نیت کرلیں۔یاد رکھیں  حج کی نیت کرنا، حج کی تین فرائض میں سے پہلا  فرض ہے۔

ویسے تو آٹھ ذوالحج کو منیٰ میں قیام کرنا ہوتا ہے لیکن انتظامی امور اور رش کے پیشِ نظر سات ذوالحج کو عشاء کی نماز کے بعد حجاج کرام کو منیٰ میں انکے خیموں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

قیامِ منیٰ

مناسکِ حج میں پہلی منزل منیٰ ہے جسے یوم الترویہ بھی کہاجاتا ہے، جہاں حج کے ایام میں خیمہ بستی آباد ہوتی ہے۔ قیامِ منیٰ واجب ہے۔  کتابوں میں منیٰ کا مطلب قربان گاہ آیا ہے اور یہ نام حضرت ابراہیؑم کے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کردینے والے واقعہ کے بعد سےچلا آرہا ہے۔ مشاعر ٹرین کے منیٰ سٹاپ نمبر 2 کے عقب میں پہاڑ پہ وہ مقام آج بھی محفوظ ہے جہاں اللہ کے حکم سے ابراہیمؑ نے اپنے لختِ جگر کو رہِ خدا میں قربانی کیلئے پیش کیا۔ منیٰ میں سوائے فرض نمازوں کے کوئی خاص عمل نہیں، بس دعائیں کریں۔ ایامِ حج کیلئے احباب میں سے کسی کو امام مقرر کردیں تاکہ حج کے دنوں میں باجماعت نمازیں ادا کریں اور زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں۔ منیٰ میں عارضی خیمہ میں قیام کرنا سنتِ نبویﷺ ہے۔ منیٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت دی ہے کہ اس میں جتنے چاہے حاجی سما جائیں جگہ کم نہیں پڑے گی مزید یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں قربانی کے باوجود کوئی چیل کوا آلائشوں کے اوپر منڈلاتے نظر نہیں آتے۔

حج کا دوسرا دن:  نو ذوالحج

وقوفِ عرفات

نو ذوالحج جسے یومِ عرفہ بھی کہا جاتا ہے ، اصل حج کا دن  ہے اور وقوفِ عرفہ حج کا رکنِ اکبر ہے۔ اس روز کوئی بھی ذی روح ،  اگر زوال کے وقت سے مغرب سے پہلے تک،  میدانِ عرفات میں آجائے،  یا وہاں سے گزر جائے تو وہ حاجی ہوگا۔ اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے وقوفِ عرفہ رہ گیا تو حج نہیں ہوگا۔ انتظامی امور اور رش کے پیشِ نظر حاجیوں کو آٹھ ذوالحج کی رات عشاء کی نماز کے بعد عرفات میں انکے خیموں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ وقوفِ عرفات یعنی ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد کھلے میدان میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا اور مناجات کرنا حج کا دوسرا فرض ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ پاک یومِ عرفہ سے زیادہ بندوں کو جہنم سے آزاد کرے۔ آپ حج کررہے ہیں یا نہیں، نو ذوالحج کو خصوصی طور پہ عبادات اور استغفار کا اہتمام کریں۔ حاجی کیلئے نو ذوالحج کا روزہ حرام ہے لیکن جو حج نہیں کررہے وہ ضرور رکھیں کیونکہ یوم عرفہ کا روزہ گزشتہ سال کے تمام گناہوں کو مٹاتا ہے۔

میدانِ عرفات میں ظہر کی نماز کی رکعتوں پہ عموماً کافی بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑا  ہوتا ہے، حتیٰ الوسع بحث مباحثہ سے گریز کریں۔ نبی اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے عرفات میں ظہر کے دو فرض ادا کئے کیونکہ وہ مسافر تھے (یعنی مکہ میں پندرہ روز سے کم قیام تھا) اور بعد کے سالوں میں جن صحابہ کا قیام پندرہ روز سے زیادہ کا تھا انہوں نے پوری نماز ادا کی۔ علماء کے مطابق دونوں طرزِ عمل درست ہیں۔ یہ سب سے قیمتی دن ہے اسے بالکل بھی ضائع مت کریں۔ ظہر کی نماز ادا کریں، جائے نماز اور پانی کی بوتل لیں اور کسی گوشہ تنہائی میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر خوب خوب دعائیں، مناجات اور آہ و گریہ کریں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، اپنے عزیز رشتہ داروں کی مغفرت مانگیں، دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں، ایمان کی سلامتی مانگیں، غرضیکہ جو جو دعائیں ہیں مانگیں کہ یومِ عرفہ دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔  دعا  اس یقین سے مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور عنایت سے ضرور عطا فرمائے گا۔

حدیث مبارکہ میں چوتھا کلمہ پڑھنے کی تاکید بھی آئی ہے۔ ظہر سے مغرب تک، دعاؤں اور ذکر و اذکار میں لگے رہیں۔ صرف عصر کی نماز کا وقفہ کریں۔ اکثر لوگ ان قیمتی ساعتوں کو سبیلوں سے کھانے کی اشیاء اکھٹی کرنے، بحث و مباحثہ یا مسجدِ نمرہ اور جبل رحمتہ کی جانب سفر میں ضائع کردیتے ہیں۔ نو ذوالحج کو مغرب سے پہلے ہرگز ہرگز میدانِ عرفات کی حدود سے باہر مت نکلیں۔ چاہے کتنی ہی دیر ہوجائے، نمازِ مغرب مزدلفہ جا کر ہی ادا کریں۔

وقوفِ مزدلفہ

نو   ذوالحج کو میدانِ عرفات سے مزدلفہ پہنچیں۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کریں۔  رمی جمرات کیلئے کنکریاں جمع کرلیں۔  مزدلفہ میں رہنے یا کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اسلئے اپنے ساتھ خشک میوہ جات، بسکٹ وغیرہ رکھیں تاکہ رات میں بھوک مٹاسکیں۔ یومِ عرفہ اور رمی جمرات دونوں جسمانی مشقت کے متقاضی ہیں  اسلئے ضروری ہے کہ مزدلفہ میں نماز کی ادائیگی کے بعد آرام کریں اور سوجائیں۔ فجر کے بعد سورج نکلنے تک مزدلفہ میں کھڑے ہوکر دعائیں مانگیں، اسے وقوفِ مزدلفہ کہتے ہیں اور یہ واجب ہے۔

مزدلفہ سے رمی کیلئے کنکریاں جمع کرلیں۔ پہلے دن جمریٰ الکبریٰ کو سات کنکریاں مارنی ہیں اور گیارہ، بارہ اور تیرہ کو تینوں جمروں کو سات سات کنکریاں مارنی ہیں، اس طرح کل  انچاس کنکریاں  گن کر رکھ لیں۔

حج کا تیسرا دن: دس ذوالحج

دس ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد وقوفِ مزدلفہ کریں اور پھر منیٰ کی جانب روانہ ہوجائیں تاکہ رمی جمرات ادا کرسکیں۔ رمی کے علاوہ دس ذوالحج کو قربانی اور حلق یا قصر لازماً کروانا ہوتا ہے اور طوافِ زیارت کا وقت بھی شروع ہوجاتا ہے۔

رمی جمرات

دس ذوالحج کو زوال سے پہلے رمی کرنی ہوتی ہے اور صرف جمرہ الکبریٰ یعنی بڑے شیطان کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں۔ سات کنکریاں گن کر علیحدہ کرلیں  اور تسلی سے جمرہ کے ستون کو سامنے جاکر ایک ایک کرکے کنکریاں ماریں۔ کنکری مارتے وقت اللہ اکبر پڑھیں، حج کی تربیتی کتابوں میں دیگر دعائیں بھی درج ہیں۔

بسم اللہِ اللہُ اکبر رغماً للشیطٰن  و رضی للرحمٰن ، اللھمہ اجعلہ ، حجاً مبروراً و ذنباً مغفوراً  و سعیاً مشکوراً

شروع اللہ کے نام سے جو سب سے بڑا ہے، شیطان مردود کی تذلیل کیلئے اور اللہ کو راضی کرنے کیلئے ۔ اے اللہ حج کو مقبول بنا ، گناہوں کو بخش دے

کنکریاں مارنے کے بعد دعا کریں۔ یہاں سے واپس منیٰ میں اپنے خیمے کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے اور طوافِ زیارۃ کیلئے بھی جایا جاسکتا ہے۔

قربانی

دس  ذوالحج کو رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کریں۔  اکثر حجاجِ کرام بنکوں کے ذریعہ قربانی کرتے ہیں اور انہیں پہلے ہی سے قربانی کا مقررہ وقت بتادیا جاتا ہے۔  ایسے میں اس وقت تک احرام نہ کھولیں۔ اگر آپ نے بنک کی بجائے کسی جاننے والے کو قربانی کی رقم ادا کی ہے تو رمی سے فارغ ہوکر اسے قربانی کیلئے مطلع کردیں اور اسکی طرف سے اطلاع آنے تک انتظار کریں۔ اگر قربانی مقدور نہیں قرآن کریم کے حکم کے مطابق دس روزے رکھنے ہونگے، جس میں سے تین مکہ میں اور سات اپنے وطن واپس جاکر۔

حلق یا قصر

قربانی کی مصدقہ اطلاع کے بعد احرام کی پابندی ختم ہوجاتی ہے، آپ حلق کروا کر احرام کھول دیں۔ یاد رکھیں قربانی سے پہلے حلق کروانے یا احرام کھولنے پہ دم واجب ہوجائیگا۔ رمی، قربانی اور حلق یا قصر کی ترتیب ضروری ہے ورنہ دم واجب ہوگا۔ نبیﷺ نے قصر کروانے والے کیلئے ایک بار دعا مانگی اور حلق کروانے والے کیلئے تین بار دعا مانگی۔روایت میں آتا  ہے کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے۔  اللہ تعالیٰ کو یقیناً ہمارے سر کے کٹے بالوں کی ضرورت نہیں، یہ تو جذبہ قربانی کی بات ہے کہ کون کس حد تک اپنی زیب و زینت اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے۔ یقیناً اس کا اجر  اور برکت  بے حساب ہوگی۔

طوافِ زیارت

طواف زیارت حج کا تیسرا فرض ہے۔ رمی سے فارغ ہوکر بھی طوافِ زیارۃ کرسکتے ہیں اور قربانی و حلق کروا کر احرام کھول کر بھی۔ طوافِ زیارۃ  دس ذوالحج کو صبح فجر کے بعد سے بارہ ذوالحج مغرب سے پہلے پہلے تک ہے۔  طواف زیارت بالکل عمرہ کے طواف کی طرح ہوگا، جسکی نیت طوافِ زیارت کی ہوگی، سات چکروں کے بعد دو نفل واجب طواف کے پڑھنے ہونگے پھر سعی کرنی ہوگی۔ حجِ قران والے صرف طواف کریں گے۔جمرات سے حرم تک تقریباً چار کلومیٹر کا پیدل راستہ ہے، اگر اللہ نے آپ کو ہمت اور صحت ادا کی ہے تو پیدل ہی نکلیں۔ سڑکوں پہ رش کے باعث گاڑیوں اور بسوں میں مختصر فاصلہ بھی بہت دیر میں طے ہوگا، پیدل جانے سے جلدی بھی رکن ادا ہوجائیگا اور ہر قدم چلنے پہ  ثواب علیحدہ۔

حج کا چوتھا اور پانچواں دن: گیارہ اور بارہ ذوالحج

رمی جمرات

دس  ذوالحج کو طوافِ زیارت کے بعد منیٰ میں اپنے خیمے میں واپس آجائیں۔ اب  گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحج  کو  زوال کے بعد کنکریاں  مارنی  ہیں،  اسکے علاوہ کوئی مخصوص عمل نہیں فرض نمازیں ہیں یا نفلی عبادات۔  گیارہ اور بارہ کی رمی میں تینوں جمروں یعنی شیطانوں کو سات سات کنکریاں فی کس مارنی ہیں۔ گیارہ اور بارہ کی رمی  واجب ہے جبکہ تیرہ کی رمی جو کرلے اس کو ثواب جو نہ کرسکے اس پہ کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اگر بارہ ذوالحج کو مغرب سے پہلے پہلے منیٰ سے نہیں نکلا تو تیرہ کی رمی واجب ہوجائیگی۔

مکہ واپسی

تیرہ  کی رمی مکمل کرکے آپ واپس مکہ میں اپنی رہائشگاہ آجائیں گے۔ الحمدللہ حج مکمل ہوگیا۔ اب جتنے دن مکہ میں قیام ہے حج سے پہلے والی روٹین پہ واپس آجائیں۔

طوافِ وداع

طوافِ وداع حج کا آخری واجب ہے۔ حج کے بعد جتنے دن بھی مکہ قیام ہے وہ کرکے جب مکہ سے روانہ ہونے لگیں تو آخرمی طواف طوافِ وداع کہلائے گا۔ خواتین کو بعض حالتوں میں اس سے رعایت حاصل ہے مردوں پہ البتہ یہ ہر صورت واجب ہے اور چھوڑنے پہ دم دینا لازم ہوگا۔ جتنے دن مکہ میں رہیں روز طواف کریں، کعبہ کی زیارت کریں تو مختلف کیفیت ہوتی ہے مگر جیسے ہی اس پاک نگری کو چھوڑ کر جانے کا خیال کریں دل میں ہول اٹھتے ہیں اور بے اختیار رونا آجاتا ہے، طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔ انہی کیفیات کیساتھ آخری طواف ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے بار بار اس پاک سرزمین پہ حاضری کی دعا کریں، حرم سے نکلتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر کعبے کو دیکھیں اور یہ دل افروز منظر اپنی یاداشتوں میں محفوظ کرلیں۔ گھر لوٹ آنے کے بعدکعبے کا منظر، کعبے کی رونق آپ کو بہت یاد آئے گی۔

مدینہ منورہ کی حاضری و قیام

ہر قسم کی حج سکیم میں مدینہ رہائش کے دن آٹھ سے دس  ہوتے ہیں۔  مدینہ  کا موسم بھی گرم مرطوب ہے اورباقاعدہ لوُ چلتی ہے۔ مکہ کی طرح یہاں بھی تقریباً  ہر جگہ اے سی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اکثر حاجی حضرات شدید گرمی سے آکر   اور پسینے کی حالت میں  اے سی کے سامنے  کھڑے ہوجاتے ہیں جس سے گرم سرد ہوکر بیمار ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ کوشش کریں انتہائی باریک کپڑے زیب تن کریں تاکہ گرمی اور حبس کی شدت کا اثر کسی قدر زائل ہوسکے۔ باہر آتے جاتے دھوپ والا چشمہ ضرور لگائیں اور سر پہ رومال یا صافہ ضرور رکھیں تاکہ سن سٹروک سے بچے رہیں اور بوقتِ ضرورت اس سے جائے نماز کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ حرمِ پاک کی طرح مسجد نبویﷺ  میں بھی ٹوٹیاں خودکار ہیں جو تھوڑی دیر پانی بہا کر خود ہی بند ہوجاتی ہیں جو پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے بہترین نسخہ ہے، اگر زائد پانی درکار ہوتو ہاتھ ٹونٹی کے نیچے کریں، پانی خودبخود نکلنا شروع ہوجائیگا۔مدینہ میں ادب کا بہت خیال کریں، اپنی بات چیت، لوگوں سے معاملات وغیرہ  نہایت معاملہ فہی، دھیمے لہجے  اور خوش اسلوبی سے۔ اہلیانِ مدینہ ویسے بھی بہت پیار کرنے والے اور دھمیے مزاج کے لوگ ہیں۔

روضہ رسولﷺ پہ حاضری

تمام مسلمان شہرِ مدینہ اور بالخصوص روضہ رسولﷺ پہ حاضری دینے کو بیتاب ہوتے ہیں اور جب ایسا موقع آئے تو خود کو نہایت خوش قسمت تصور کرتے ہیں۔ پاکستان سے سیدھی فلائٹ ہو یا مکہ سے جائیں، کم از کم ایک ہزار مرتبہ درود پاک اور ایک ہزار مرتبہ سورۃ کوثر پڑھ کر ہدیۃً لے جائیں اور روضہ رسولﷺ پہ جاکر خدمت میں پیش کریں۔  حدیث کا مفہوم ہے کہ جو مسلمان میرے روضہ پر حاضری دے تو اسکی شفاعت مجھ پر واجب ہے۔ اللہ اللہ، روضہ پہ حاضری کیسی عظیم سعادت ہے، اللہ ہم سب کو بار بار نصیب فرمائے۔ قیام کے دوران کوشش کریں جس قدر دورد پاک پڑھنا ممکن ہو پڑھیں۔

مدینہ پاک میں عموماً اور روضہ رسولﷺ پہ خصوصاً ادب کو ملحوظِ خاطر رکھیں ورنہ سورۃ  حجرات  میں وارد وعید کی پکڑ میں نہ آجائیں۔ مدینہ پہنچ کر پہلے غسل کریں، اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر انتہائی متانت اور ادب سے چلتے ہوئے مسجد آئیں اور دعا پڑھیں۔ بہتر ہے پہلے دو رکعت تحیتہ المسجد ادا کریں اور صلوٰۃ حاجت پڑھیں، اللہ کا شکر ادا کریں کہ مدینہ حاضری کا موقع نصیب ہوا، اسکے علاوہ اللہ سے مدد کی درخواست کریں کہ دربارِ مصطفیٰﷺ  میں میں آسانی والا معاملہ ہو۔ پھر بابِ السلام سے داخل ہوکر مواجہ شریف کے سامنے جاکر رکیں، سلام پیش کریں، نبی اکرمﷺ سے اپنے ایمان کا گواہ بن جانے کی استدعا کریں۔ سلام پیش کرنے کا کوئی مروجہ طریقہ / دعا نہیں، البتہ اسلاف ان الفاظ میں سلام پیش کرتے تھے؛

السلام علیک  ایھا النبیُ رحمتہ اللہ و برکاتہ السلام علیک یا حبیب اللہ السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا خاتم النبین و المرسلین صل اللہ علیہ والہ وسلم

جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوا کہ ادب کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں۔ روضہ رسولﷺ انتہائی ادب کا مقام ہے اور ناعاقبت اندیش لوگ وہاں بجائے تعظیم و  ادب کے موبائل سے ویڈیو بناتے،  ہاتھ میں چپلیں تھامے خوش گپیوں میں مصروف ،ہاؤ ہو اور دھکم پیل کرتے گزرتے ہیں۔ سورۃ حجرات کی یہ آیت

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو

باب السلام سے داخل ہوتے ہی کوشش کریں کہ بغیر کسی کو دھکا دیئے، بہت ادب اور متانت سے چلتے ہوئے مواجہ شریف تک جائیں اورمودبانہ طریقے سے سلام پیش کریں پھر دونوں شیخین کو سلام کریں اور بابِ جبرئیل سے باہر نکل جائیں۔عصر اور فجر کے بعد کوشش کریں کہ فوراً سلام کیلئے حاضری نہ دیں کیونکہ بہت بھیڑ ہوتی ہے اور دھکم پیل وغیرہ کا احتمال رہتا ہے۔

روضہ مبارک پہ جالیوں سے اوپر سورۃ حجرات کی یہ آیت درج ہے

إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ

جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں خدا نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے

روزمرہ معمولات

مدینہ  رہائش کے دوران کوشش کریں زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزرے۔ مسجدِ نبویﷺ میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے، اسی طرح گناہ کا وبال بھی بڑھ جاتا ہے، حد درجہ احتیاط لازم ہے ۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں بہت ناپ تول کر بات کرو کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بھی پکڑ ہوگی اور بے ادبی کے زمرہ میں آئیگی۔  لوگ مسجد میں بھاگتے ہیں، شور کرتے ہیں، دھکم پیل کرتے ہیں، اس سے جس حد تک ممکن ہو بچنا ہے۔مسجدِ نبوی میں ہر نماز کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے، کوشش کریں نمازِ جنازہ کا طریقہ اور مسائل کی آگاہی حاصل کرکے جائیں تاکہ اس فرضِ کفایہ کا ثواب حاصل کرسکیں۔

کوشش کریں تہجد کے وقت مسجد آجائیں اور اصحاب صفہ والے چبوترے کے آس پاس نفل پڑھ کر فجر تک وہیں تلاوت کریں، اور نماز کے بعد وہیں سے آگے سرک کر ریاض الجنہ     میں داخل ہوں۔ فجر کی نماز سے اشراق تک تقریباً پون گھنٹا وہاں تلاوت، دعائیں وغیرہ کریں، باقی اوقات میں اصحابِ صفہ والی طرف سے ریاض الجنہ کا حصہ  خواتین کیلئے مختص ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ تہجد کے وقت اصحابِ صفہ کے چبوترے کے سامنے ذرا بائیں ہاتھ پر جو برآمدہ سا ہے اگر موقع ملے تو وہاں بیٹھ کر عبادت کریں۔ اس جگہ کو ‘قدمین شریف’ کہتے ہیں، اس طرف حضورِ اکرمﷺ کے قدم مبارک ہیں۔

اسکے علاوہ فجر اور عصر کی نماز کے بعد جنت البقیع زیارت کیلئے کھلتا ہے، وہاں جائیں اور اہلیانِ بقیع غرقد کیلئے فاتحہ خوانی کیجئے۔اسکے بعد ناشتہ وغیرہ کرکے تھوڑی نیند کرلیں اور ظہر سے پہلے مسجد آجائیں، سلام کرکے کوشش کریں مسجد کے قدیمی حصہ میں بیٹھ جائیں، عصر تک تلاوت کریں، عصر سے مغرب  کافی وقت ہوتا ہے، کھانا  کھاکر آجائیں اور اگر کچھ خریداری کرنی ہو تو اسکے لیئے بھی بہترین وقت ہے

ضروری باتیں

سب سے پہلے اپنی رہائش گاہ سے مسجد نبویﷺ کا راستہ سمجھ لیں، علاقے، سڑک کا نام وغیرہ ذہن نشین کرلیں، ہوٹل کا کارڈ ضرور ہمراہ رکھیں تاکہ پتہ بھول جانے کی صورت میں کسی کو دکھا کر راستہ معلوم کرلیں۔ مسجد نبویﷺ کے 36سے زائد دروازے ہیں، آپ کی رہائش والے راستے پر جو بھی دروازہ آتا ہو اسکا نام اور نمبر ضرور یاد رکھیں۔مسجد نبویﷺ کی بہت سی ویڈیوز    یوٹیوب پہ موجود ہیں جن سے راستوں اور مسجد کے نقشے بارے رہنمائی اور آگاہی لی جاسکتی ہے۔ مسجد الحرام کے برخلاف، مسجد نبویﷺ میں مرد و خواتین کے بیٹھنے، نماز پڑھنے اور روضہ پہ حاضری کیلئے الگ الگ دروازے ہیں۔ خاص طور سے اگر خواتین آپ کے ہمراہ ہیں تو ان کو راستوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ اکیلی بھی آ جا سکیں۔

اسکے علاوہ سب سے زیادہ شکایت لوگوں کو چپلیں گم جانے کی ہوتی ہے جس میں درحقیقت زیادہ تر قصور خود حجاجِ کرام کا ہی ہوتا ہے۔  مسجدِ نبویﷺ کے داخلی دروازوں کے دائیں بائیں یا اندر داخل ہو کر سامنےجوتوں والے ریک میں جوتا رکھیں اور اسکا نمبر نوٹ کرلیں۔کوشش کریں کہ صدر دروازے سے ہٹ کر جو جوتے رکھنے والا ریک ہو اسی میں ہمیشہ  جوتے رکھیں ۔ایک آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے کہ جوتا رکھتے وقت صدقِ دل سے نیت اور دعا کریں کہ اے اللہ میرے اس سامان کی حفاظت فرمانا۔

دو ریال کا عمرہ، ریاض الجنہ و دیگر عبادات

مسجدِ قبا اسلام کی پہلی مسجد تھی، نبی اکرمﷺ کا معمول تھا وہاں جاتے اور دو نفل ادا کرتے۔ مسجدِ قبا میں دو نفل ادا کرنے کا ثواب ایک مقبول عمرہ کے برابر ہے۔  مسجدِ قبا جانے کیلئے مسجدِ نبویﷺ کے چھ نمبر گیٹ کے سامنے سے ویگنیں دو ریال فی نفس کے حساب سے جاتی ہیں، نہایت آسان عمل ہے، صبح اشراق کے وقت مسجدِ نبویﷺ سے نکلیں اور مسجدِ قبا جاکر اشراق کے نفل ادا کریں اور فقط دو ریال میں عمرے کا ثواب پائیں۔

حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ میرے گھر سے میرے منبر تک کا علاقہ جنت کا باغ ہے۔ اسی نسبت سے یہ ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔ ساری مسجد میں قالین سرخ رنگ کے ہیں مگر ریاض الجنہ کو  سبز رنگ کے  قالین سے ممتاز کیا گیا ہے۔ باب السلام سے داخل ہو کر ذرا سا بائیں ہاتھ کو ریاض الجنہ میں نفل پڑھنے کے خواہشمندوں کی مستقل قطار بنی رہتی ہے۔ بغیر شور شرابا اور دھکم پیل کئے، انتہائی ادب اور سنجیدگی سے قطار میں لگے رہیں، انشاءاللہ تھوڑی دیر میں باری آجائیگی۔ جیسے ہی سبز قالین نظر آئیں، جہاں جگہ ملے خاموشی سے نفل ادا کرلیں اور خوب التجائیں کریں اور دعائیں مانگیں۔ اللہ سے قوی امید ہے کہ ایک بار جنت میں داخل کرکے بے دخل نہیں کرے گا۔

ریاض الجنہ میں نبی کریمﷺ کا منبر آج بھی موجود ہے، اب جہاں سجدہ میں نمازی کا سر آتا ہے وہاں آقائے نامدار ﷺ کے قدم مبارک رہتے تھے۔ اسکے علاوہ حضرت عثمان کا منبر بھی موجود ہے۔ ریاض الجنہ کے  سات ستون ہیں جو دینی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور انہیں سبز رنگ کی تختی نما لگا  کر دیگر ستونوں سے ممتاز کردیا گیا ہے ، تفصیل اس یوٹیوب ویڈیو  میں۔  کوشش کریں ان ستونوں کے پاس نفل ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوجائے، مگر کسی کو دھکا دے کر یا اسکا حق مار کر ایسا کرنا یقیناً حرام اور گناہ کا باعث ہوگا۔

روایت ہے کہ  جو شخص آٹھ روز متواتر تمام نمازیں مسجدِ نبویﷺ میں باجماعت ادا کرے (یعنی چالیس نمازیں) انشاءاللہ اس میں سے بغض وکینہ ختم ہوجائیگا، اسکا خاص اہتمام کریں۔ نماز کے علاوہ والے اوقات میں پرانی مسجد کے چھتریوں والے صحن میں بیٹھ کر گنبدِ خضرا کو دیکھتے جائیں اور نعتیں سنتے یا پڑھتے جائیں۔ نعت پڑھنے یا سننے کا جتنا سرور گنبدِ خضرا کے سامنے آتا ہے اور شاید ہی کہیں آتا ہو۔

مدینہ میں فرض نمازوں اور روضہ رسولﷺ پہ حاضری کے سوا اور کوئی عبادت نہیں اس لیئے  قیام کے دوران کوشش کریں کم از کم ایک مرتبہ ختم قرآن شریف ضرور  کریں اور جتنے ہوسکیں روزے رکھیں۔ صدقہ حسبِ توفیق کریں، کوشش کریں کہ بھیک مانگنے والوں کی بجائے  خدام کو صدقہ کی رقم دی جائے۔ پندرہ ریال ہدیہ دے کر قرآنِ کریم حاصل کریں یا تیس ریال ہدیہ کے عوض بیٹھ کر نماز ادا کرنے والی کرسی لیں  اور حرم میں رکھ چھوڑیں جتنے لوگ نماز پڑھیں گے آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہوگا۔

زیارتِ مقدسہ

 مدینہ منورہ کی  زیارتوں میں مسجد نبویﷺ، جنت ابقیع ، قرآن ایگزبیشن، مسجد نبوی و مدینہ میوزیم، مسجدِ علی، مسجد ابوبکر، مسجد عمر، مسجد عثمان، مسجد امام بخاری، مسجدِ غمامہ، مسجدِ قبا، مسجد قبلتین، مسجد جمعہ، بیرِ رومہ، بیرِ علی،  جبل احد، سید الشہداء حضرت  حمزہ اور شہدائے احد   کی یادگار، سبع مساجد وغیرہ شامل ہیں اکثر زیارات تو مسجد نبویﷺ سے بالکل قریب واقع ہیں۔ کسی بھی نماز کے بعد پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔اسکے علاوہ زیارات کیلئے کسی بھی ٹیکسی یا ٹوور آپریٹر والے سے رابطہ کیا جاسکتا ہے جو دس، بیس ریال فی کس کے حساب سے تمام زیارات دکھاتے ہیں۔

مدینہ منورہ کی سوغاتیں

مسجدِ نبویﷺ میں بھی مسجد الحرام کی طرح کے آبِ زم زم کے کولر جابجا رکھے ملتے ہیں، اسکے علاوہ مدینے کی کھجور کی کیا ہی بات ہے۔ مسجد کے 6 نمبر گیٹ سے باہر نکلیں، سڑک کراس کریں سامنے کھجور مارکیٹ ہے، اپنی من پسند کھجوریں، انجیر وغیرہ خریدیں۔باقی تما م ٹوپیاں تسبیح جائے نماز اور کھلونے وغیرہ چائنہ انڈیا ترکی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں۔ مدینہ میں مسجد نبویﷺ کے گیٹ نمبر 23، 24 کے سامنے بن داؤد سٹور اور طیبہ مارکیٹ میں کافی ورائٹی ہے اور اشیاء مناسب بھاؤ مل جاتی ہیں، اسکے علاوہ، 7،8، نمبر گیٹ سے باہر نکلیں تو قدیمی بازار ہے جو ہمارے یہاں کے ہفتہ وار بازاروں کی طرح ٹھیلوں پہ مشتمل ہے، اسی طرح کا ایک چھوٹا سا بازار 6 نمبر گیٹ کے سامنے بھی لگتا ہے وہاں سے بھی کافی مناسب اشیاء مل جاتی ہیں۔  اگر خالص اور پاکستان سے نسبتاً سستا سونا خریدنا ہو تو مدینہ سے خریدیں۔ تمام دکاندار اورعملہ اردو بخوبی سمجھتا ہے اور وہاں بھاؤ تاؤ بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے۔اسکے علاوہ مدینے سے عرقِ بلسان، عجوہ کھجور کی گٹھلیوں کا سفوف، سُرمہ وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ مدینے کے تاجروں سے لین دین کا حکم ہے، اسلئے کوشش کریں کہ جو بھی سوغاتیں اور تحائف خریدنے ہوں تو یہاں سے خریدیں۔

حجِ مبرور کا ثواب، احادیث کی روشی میں

حدیثِ مبارکہ  کے الفاظ ہیں

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ” من أتى هذا البيت فلم يرفث ولم يفسق رجع كما ولد تہ امہ

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا جس نے ایسا حج کیا کہ اس میں بے حیائی ، گناہ  اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہا تو ایسا پاک ہوگیا  جیسے ابھی ابھی اسکی ماں نے جنم دیا ہو۔

یعنی گزشتہ زندگی کے تمام گناہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و عنایت سے معاف فرما دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات گوش گزار کرلیں کہ گناہ معاف ہوجاتا ہے مگر قضا باقی رہ جاتی ہے۔ جیسے اگر کسی کی حق تلفی کی، مال غصب کیا، فرض روزے چھوڑے تو انکا گناہ معاف ہوجاتا ہے مگر قضا ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ اللہ سبحان و تعالیٰ کا کرم ہے کہ حج کی ادائیگی سے ایک تو فرض جو ہمارے ذمے تھا ادا ہوگیا اور ساتھ ساتھ تمام گناہ بھی معاف ہوگئے۔  اسکے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ جو حاجی سوار ہوکر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور جو شخص پیدل حج کرتا ہے اسکے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں سے لکھی جاتی ہیں۔ عرض کی کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں تو فرمایا، ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ اللہ اللہ، کتنا عظیم اجر و ثواب ہے کہ گناہ بھی معاف اور  حرم کی نیکیاں بھی۔

حجِ مبرور اور فضائلِ حج

حدیثِ مبارکہ کی روح سے وہ حج جس میں کوئی عمل خلافِ شرع نہ ہو، تمام مناسک بالکل درستگی سے ادا کئے ہوں۔ کوئی گناہ نہ ہو، کوئی  بے حیائی نہ ہو اور لڑائی جھگڑا نہ ہو، اسے حجِ مبرور یعنی مقبول حج کہتے ہیں۔  روایات میں آتا ہے کہ جن حجاجِ کرام کا حج مقبول ہوجائے تو انکی رمی والی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں۔  کچھ علماء کے نزدیک حجِ مبرور وہ حج ہے جس کے بعد گناہ نہ ہوں۔ یعنی حاجی کی زندگی یکسر تبدیل ہوجائے اور شریعت کے سانچے ڈھل جائے اور دوبارہ حرم شریف کی حاضری کی آرذو اور تڑپ بڑھ جائے۔ نبی اکرمﷺ کی حدیث کے  الفاظ ہیں کہ حجِ مبرور کی جزا     جنت کے سوا کچھ نہیں۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حجِ مبرور یہ ہے کہ دنیا سے بے توجہی اور آخرت کی رغبت پیدا ہوجانا۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسولاللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا اللہ اور اس کے رسولﷺ پہ ایمان لانا۔ پھر عرض کی، اور اسکے بعد۔ فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر عرض کی، اور اسکے بعد۔ فرمایا مقبول حج۔  ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے جہاد سے متعلق پوچھا تو حضورﷺ نے فرمایا کیا میں تمھیں ایسا جہاد نہ بتاؤں جس میں لڑائی نہ ہو۔ پھر فرمایا، حج۔ ایک واقعہ کتب میں گزرا ہے کہ قبیلہ کتامہ کے لوگوں نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اسکی لاش کو جلانا چاہا مگر تمام رات جلنے کے باوجودبھی آگ نے اسکے بدن پہ ذرا بھی اثر نہیں کیا۔ تو لوگوں نے اسکی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا اس شخص نے تین حج کررکھے تھے۔ واقعہ کے راوی کا بیان ہے مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے فرض ادا کیا، جس نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کو قرض دیا اور جس نے تیسرا حج کیا تو اللہ جل شانہُ نے اسکی کھال کو اور اس کے بال کو آگ پر حرام کردی۔  ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ دو لوگ نبیﷺ کے پاس آئے اور حج کے فضائل و ثواب متعلق سوال کیا۔ حضورِ نے فرمایا گھر سے حج کا ارادہ کرکے نکلے تو جتنے قدم تمھاے سواری اٹھائے گی تو تمھارے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائیگی، اور ایک گناہ معاف  ہوگا۔ اور طواف کے بعد دورکعتوں کا  ثواب ایسا ہے گویا ایک عربی غلام آزاد کیا ہو اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔  عرفات کے میدان میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو اللہ سبحان وتعالیٰ آسمانِ دنیا پہ اتر آتے ہیں اور فرشتوں سے فخر کے طور پہ فرماتے ہیں  کہ میرے بندے دور دور سے پراگندہ بال آئے ہوئے ہیں، میری رحمت کے امیدوار ہیں۔ اگر تم لوگوں کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر بھی ہوں یا  بارش کے قطروں کے برابر بھی ہوں یا سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں تب بھی میں نے معاف کردیئے میرے بندو۔ جاؤ بخشے بخشائے چلے جاؤ تمھارے بھی سب معاف ہیں اور جن کی تم نے سفارش کی ان کے بھی سب معاف  ہیں۔ اس کے بعد حضورِ کریمﷺ نے فرمایا شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا یہ حال ہے کہ ہر کنکری کے بدلے ایک بڑا گناہ جو ہلاک کردینے والا ہو معاف ہوجاتا ہے اور قربانی کا بدلہ اللہ کے یہاں تمھارا ذخیرہ ہے اور احرام کھولتے بال منڈانے کا یہ کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب انسان طوافِ زیارت کرتا ہے تو اس طرح کہ اس پہ کوئی گناہ نہیں ہوتا اور ایک فرشتہ اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر صدا لگاتا ہے کہ تیرے پچھلے تمام گناہ معاف ہوگئے، ازسرِ نو اعمال کر۔ علماء کے مطابق یہ تمام فضائل اور برکات حجِ مبرور کے صلے میں ہیں۔ اللہ ہم سب کے حج کو حجِ مبرور بنائے اور یہ برکیتں سمیٹنے والا بنائے۔ آمین

فضائلِ عمرہ

رسول کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کل چار عمرے کیئے۔پہلا عمرہ  چھ سنہ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر (حضورﷺ احرام باندھ کر آئے تھے مگر کفار کی جانب سے اجازت نہ ملنے پہ دم ادا کرکے واپس لوٹ گئے)   دوسرا عمرہ صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق سات  ہجری میں، تیسرا عمرہ آٹھ سنہ ہجری میں  غزوہ حنین سے لوٹتے ہوئے جعرانہ سے  احرام باندھ کر ادا کیا، اور چوتھا عمرہ مدینہ منورہ سے   حجتہ الوداع کے موقع پر  دس سنہ ہجری میں ادا کیا ۔  ایک روایت میں آتا ہے کہ عمرہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنا وفد قرار دیتا ہے۔ اللہ کا وفد تین طرح کے لوگوں پہ مشتمل ہوتا ہے اول مجاہد، دوم حاجی اور سوم عمرہ کرنے والے۔ جو دعا کرتے ہیں پوری ہوتی ہے، جو مانگتے ہیں عطا کیا جاتا ہے اور جو خرچ کرتے ہیں اسکا بدل ان کو مل جاتا ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان کے درمیان سرزد ہوئے۔  ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا حج و عمرہ کے درمیان متابعت عمر کو بڑھاتی ہے، گناہوں اور مفلسی کو ایسے دور کرتی ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔ متابعت یہ ہے کہ اگر پہلے حج کیا ہے تو پھر عمرہ کرو اور عمرہ کرلیا تو حج کرو، یعنی آگے پیچھے حج و عمرہ کرتے رہنا۔

طواف کے فضائل و  ثواب

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بیت اللہ پہ ہر روز ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ جن میں سے ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں کیلئے، چالیس نمازیں پڑھنے والوں کیلئے اور بیس بیت اللہ کو دیکھنے والوں کیلئے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ طواف کرنے والا ایک قدم اٹھا کر دوسرا قدم نہیں رکھتا کہ اللہ سبحان و تعالیٰ اس کی ایک خطا معاف فرما دیتے  اور ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں۔ علماء و صلحا بتاتے ہیں کہ طواف مسجد حرم کی سب سے افضل نفلی عبادت ہے کہ یہ اس جگہ کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی ممکن و میسر نہیں۔

حج  کے بعد کی زندگی

حضورِ اکرم حضرت محمدﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ حجِ مبرور کے بعد انسان بالکل ایسے ہوجاتا ہے جیسے ابھی پیدا ہوا ہو۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل اور کرم سے حاجی کے تمام گناہ معاف کردیتے ہیں اور اسکے نامہ اعمال سے مٹا دیتے ہیں۔ یعنی حج کے بعد آپ نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔ حج سے پہلی کی زندگی تو جیسے گزری سو گزری مگر اب ایک سنہری موقع ملا ہے تو زندگی کو پابندِ شریعت کرنا ہے، سنت کے مطابق چلنا ہے اللہ کے قوانین کے خلاف نہیں جانا۔ نماز روزہ کی پابندی کرنی ہے، اخلاق اچھے کرنے ہیں، کسی کا حق نہیں مارنا، جھوٹ، دھوکہ مکر و فریب سے دور رہنا ہے برائی میں یقیناً بہت کشش ہوتی ہے لیکن اللہ سے دین پہ استقامت مانگتے رہنا تاکہ گناہوں کی کشش معدوم ہوجائے اور نیکیوں کی طلب بڑھتی رہے۔ اس کے علاوہ اللہ سے نیکی کرنے کو آسان اور گناہ کرنے کو مشکل کردینے کی دعا بھی کثرت سے مانگیں۔  رہنمائی کیلئے حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب کے تحریر کردہ  کتابچے  حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں   کا مطالعہ ضرور کریں۔

حج کے بعد استقامت کی دعا

حج سے پہلے اور بعد میں جتنے دن بھی مکہ اور مدینہ میں قیام ہو تو اپنی دعاؤں میں خصوصی طور پہ اللہ تعالیٰ سے حج کے بعد والی زندگی میں دین پہ استقامت مانگیں۔ پہلے اپنے حج کی قبولیت اور حج کے بعد اس کی سلامتی کی دعائیں ضرور مانگیں۔بزرگ فرماتے ہیں کہ حجِ مبرور کی واضح ترین  نشانی ہے کہ حج سے قبل اور بعد والی زندگی میں فرق آجائے۔  انسان احکامِ شرعیہ پہ عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے  ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہدایت نصیب فرماتے ہیں اور اس کو سنبھال رکھنا نہایت ضروری اور مشکل ہے۔ قرآن میں  سورۃ العمران میں  باقاعدہ یہ دعا سکھائی گئی     ہے، اور ہر مسلمان کو چاہیئے کہ اس کو ضرور پڑھیں اور صدقِ دل سے ہر نماز کے بعد مانگا کرے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

اے ہمارے رب، ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو مت پھیرنا اورہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما۔ بےشک تو ہی عطا کرنے والا ہے

بے شک اللہ کی عنایت ہی سے ہدایت اور استقامت ممکن ہے۔ اگر اللہ کا کرم و فضل شاملِ حال رہے تو یقیناً انسان شیطان مردود کے شر سے بچا رہے۔ اسکے علاوہ ہر ممکن کوشش کریں کہ حج کے بعد بھی اپنے اعمال اور دن کے معمولات اسی طرح برقرار رکھیں۔ مثلاً نمازوں کی جماعت کے ساتھ ادائیگی کو یقینی بنائیں، نوافل کی ادائیگی جاری رہے،  تلاوتِ کلامِ پاک کا معمول بھی بلاتعطل ہو، صدقہ وغیرہ بھی اسی تواتر سے دیئے ائیں، کیونکہ جس دن معمول ٹوٹا اسکے بعد واپس اس پہ آنا نہایت مشکل ہوگا۔

حج کے فوراً بعد تو چونکہ حجاج کچھ روز حجاز میں ہی قیام کرتے ہیں تو مقدس مقامات کی برکت سے معمولات درست رہتے ہیں۔ نماز وغیرہ کی پابندی بھی ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی اپنے وطن واپس روانگی ہوتی ہے معاملات بگڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اول اول سفری تھکاوٹ، ملنے جلنے والوں کی آمدورفت وغیرہ کے باعث جماعت کیساتھ نمازیں فوت ہونا شروع ہوتی ہیں، پھر فجر و عشاء کی نمازیں قضا ہونے لگتی ہیں اور ایسے شیطان مردود آہستہ آہستہ حاجیوں کے گرد اپنا جال بن کر انہیں واپس پرانی ڈگر پہ لانے کی کوشش کرتا ہے۔

شیطان کے حملے سے کیسے بچیں

حج کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ انشاءاللہ اپنے فضل اور کرم سے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیں گے اور حدیثِ نبویﷺ کے مطابق  نامہ اعمال بالکل ایسا ہوگا جیسے نومولود بچے کا۔ایسے میں پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اب شیطان مردود کے حملے پہلے کی نسبت زیادہ ، نہایت زور آور اور متواتر  ہوں گے۔ شیطان عموماً حجاج کے وطن واپس پہنچتے ہی اپنا جال بچھانا شروع کردیتا ہے۔ جیسے کہ تھکاوٹ، نیند ، طبیعت وغیرہ بوجھل کے بہانے جماعت سے نمازیں فوت ہونگیں، تلاوت موقوف ہوگی، پھر احباب کی گفتگو سے خودنمائی و ریاکاری  کا بیج بوئے گا کہ ‘اے بندے تیری تو بخشش ہوگئی، حاجی کی چالیس روز دعا قبول ہوتی ہے، اب موج کر، حج کے موقع والے اعمال تو یہاں ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ’۔  حج کے بعد زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کیلئے نہایت ضروری ہے کہ نیک اعمال کریں اور ساتھ ہی ساتھ گناہوں سے بھی بچتے رہیں۔ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل کے بغیر ممکن نہیں، انسان کے بس میں آرذو کرنا اور اپنے رب سے مانگنا ہے، یقین اور طلب کیساتھ مانگیں گے تو وہ  ضرور عطا کرے گا۔

جیسا کہ اوپر بھی بیان ہوا کہ استقامت اور استحکامِ قلب کی دعا مسلسل مانگتے رہیں۔ پھر حتیٰ الوسع کوشش کریں کہ جماعت فوت نہ ہو۔ اگر کبھی خدانخواستہ جماعت سے نماز رہ جائے تو فوراً گھر میں ادا کرلیں ایسے نماز ضائع نہیں ہوگی ۔ پھر ہر نماز  کے بعد اگلی نماز کیلئے ضرور دعا کریں۔ اگر خدانخواستہ کوئی نماز رہ جائے تو بہت زیادہ پشیمان ہوں اور فوراً اللہ کی طرف رجوع کریں، توبہ کریں اور پہلی فرصت میں قضا ادا کریں۔  نوافل  اور تلاوت کا جو معمول بنا ہو بہت کوشش کریں کہ وہ قائم رہے۔

اسی طرح چھوٹے گناہ  سے بچیں اور چھوٹی نیکیوں کو ہرگز نہ چھوڑیں۔ ہم عموماً بڑے گناہ سے بچ جاتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کو حقیر جان کر ان سے باز نہیں آتے، وہیں سے شیطان مردود کو راہ ملتی ہے۔ یہی حال چھوٹی نیکیوں  اور اعمال کا ہے کہ ان کو چھوڑتے چھوڑتے بڑی نیکیوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔  شیطان کے حیلے بہانے اور ان سے بچنے کے مجرب نسخے اس کتاب تلبیسِ ابلیس،  کو ضرور پڑھیِں۔

حج کے بعد کے اعمال  و معمولات

حج  کے بعد شیطان مردود کا حملہ زیادہ اور متواتر اس لیئے ہوتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے فضل اور عنایت سے حاجیوں کے گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اسکے علاوہ اجر و ثواب کا کیا شمار، یعنی دینی اعتبار سے مسلمان حج کے بعد کافی مالدار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں جہاں ایک طرف شیطانی حملے ہیں وہیں دوسری طرف زندگی کو بہتر انداز سے گزارنے کا ایک سنہری موقع بھی ہے۔ کہ گزشتہ زندگی کے تمام گناہ معاف ہوچکے، اللہ کے لطف و عنایت کا مزہ بھی چکھ چکا، آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کے دربار کی حاضری بھی ہوگئی اور وہاں کے نظارے بھی دیکھ آئے اور اس پاک سرزمین سے لوٹنے کے بعد واپس جانے کی جو بیتابی ہوتی ہے اس تڑپ میں نیک عمل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اور کچھ عرصہ جس بھی عمل پہ معمول بن جائے اسے مستقل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی بہترین موقع ہے کہ زندگی کو نبی اکرمﷺ کی پیاری سنتوں کے سانچے میں ڈھال لیں۔ایسے میں نبیﷺ کی سنتوں کے بارے علم حاصل کریں،ایک تو اس کی برکت سے معمولاتِ میں برکت ہوگی دوسرا سنت پہ عمل کرنے کا ذوق و شوق بڑھے گا۔  اس کتاب علیکم بسنتی میں آقاﷺ کی سنتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سنتوں سے آغاز کریں جن کا دوسروں کی زندگی پہ کوئی اثر نہیں تاکہ سنتِ نبویﷺ پہ عمل کرنے کی خو پیدا ہو اور جب تک عادت نہ بن جائے لوگوں کی باتوں میں بھی نہ آئیں، شوق بڑھے اور جیسے جیسے اللہ توفیق دیتے جائیں زندگی کو  مکمل سنت کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ چھوٹی چھوٹی سنتوں پہ عمل کرنا شروع کریں جیسے گھر میں آتے سلام کرنا، چھوٹا بڑا جو بھی ملے اس سے سلام میں پہل کرنا، اچھے اخلاق سے پیش آنا، کھانا کھانے، باتھ روم  جانے، کپڑے پہننے، جوتا پہننے، معاملات اور لین دین ، اسکے علاوہ مختلف اوقات کی دعائیں پڑھنا، نمازوں کی پابندی،  اور یہ سب  مستقل کرتے رہیں آہستہ آہستہ وہ فطرتِ ثانیہ بن جائیں گی پھر مزید سنتوں پہ عمل شروع کریں تاکہ پوری زندگی سنت کے مطابق ڈھل جائے۔

اس کے علاوہ نیکیوں کا جو ماحول بنا ہوتا ہے اس میں نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً حج سے پہلے آپ نماز کی پابندی نہیں کرتے تھے، اب  نماز کا وقت ہوا اور آپ وضو کیلئے اٹھ کھڑے  ہوئے  تو دوستِ احباب اور رشتہ دار  بھی اس بات کو سمجھیں گے اور نیک تمناؤں کا بھی اظہار کریں گے ،ان کو ترغیب  بھی ملے گی ، آپ کے کھاتے میں انکی نمازوں کی نیکیاں بھی لکھی جائیں گی۔ اسی طرح دفتر وغیرہ میں بھی پہلے پہل نماز کیلئے اٹھنا ہے، انشاءاللہ اس کے بعد دفتر کےاحباب اور افسران بھی اس بات کو سمجھیں گے  کہ حج کی برکت سے ماشاءاللہ نماز کی توفیق ہوئی اور نمازوں کے اوقات میں کام دینے کی بجائے نماز کو ترجیح دینگے۔ یہی حال نوافل کا ہے۔ ہرنماز کے ساتھ صلوٰۃ حاجت کے نفل پڑھ کر اللہ سے استقامت مانگیں، دین پہ چلنے کی ہمت اور آسانی مانگیں۔  ہفتے کا معمول بنا لیں کہ صلوٰۃ توبہ ضرور پڑھیں اور ہفتہ بھر کے گناہوں کی توبہ کریں،صبح و شام تلاوت کا معمول بنالیں، چاہے ایک دو رکوع ہی سہی۔ بہرصورت اللہ تعالیٰ سے استقامت اور استحکام مانگتے رہنا بہت ضروری ہے۔

مکہ مدینہ اور حج کی یاد تازہ رکھیں

حج والی کیفیت اور اس پاک سرزمین سے رشتہ استوار رکھیں۔ نشہید، حمد و نعتیں وغیرہ سنیں۔ بہت سی ایسی نعتیں اور حمد ہیں جو حج و عمرہ کی یاد تازہ کر دیتی  ہیں،  وہاں والی کیفیات کا احاطہ کرتی ہیں اور جذب و شوق کو بڑھاتی ہیں۔ اور نیکی کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔   گناہوں سے بچے رہنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔   نعتوں کے علاوہ دینی بیانات وغیرہ بآسانی یوٹیوب پہ دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ  ایسی تمام باتیں، چیزیں ترک کردیں جن سے دل میں گناہ کی خواہش پیدا ہوتی ہو۔ حج سے واپسی پہ جو سب سے آسان اور آگے آنے والی زندگی کو ڈھالنے کیلئے سب سے کارگر عمل ہے جو گناہوں سے بچاتا ہے وہ موسیقی سے توبہ ہے۔ گانا بجانا ویسے ہی حرام ہے، حج پہ ٹی وی ، فلم اور موسیقی سے دوری بن جاتی ہے، دل گداز ہوا ہوتا ہے۔ حرمین میں نہایت میٹھے لہجے میں  اہلِ زباں قاریوں سے قرآت سن کر  دل میں موسیقی سے اکتاہٹ ہو ہی چکی ہوتی ہے، ایسے میں اسے مکمل ترک کرنا  آسان ہوجاتا  ہے۔ گانوں کی بجائے تلاوت سنیں، نعتیں سنیں اور اللہ سے مانگتے رہیں۔ یہی حال فلموں ڈراموں کا ہے، وقت کا ضیاع بھی ہیں، غیر محرموں اور بدنظری سے بھی انسان بچتا ہے، دل میں گنا ہ کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوتی۔  بدنظری گناہوں کی جڑ ہوتی ہے۔ حج کے دوران حرمِ مکہ میں شیخ مکی الحجازی کے بیان میں اسکا مجرب نسخہ سنا تھا کہ ہر فرض نماز کے بعد  سات مرتبہ ‘لاحول ولا قوۃ الا بااللہ ‘ پڑھیں اور دل میں یہ خیال واضح رکھیں کہ کس نیت سے پڑھ رہے ہیں، انشاءاللہ بدنظری سے جان چھٹے گی۔

نیک اعمال ہوتے رہیں اور انسان گناہوں سے بچتا رہے تو زندگی خودبخود شریعت کے مطابق ڈھلتی جاتی ہے پھر اعمال اور معمولات ترتیب دینا آسان ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو مکمل شریعت اور سنت کے مطابق ڈھا ل لیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اس نیک مقصد میں کامیاب کرے اور اس پہ استقامت دے

 

7 thoughts on “حج کیسے کریں؟

Add yours

  1. ماشاء اللہ آپ نے بہت اچھوتے انداز میں اپنے تجربات شیر کیے ہیں
    سیاسی دنگل میں کیسے ہوگا مسلمانوں کا منگل؟
    http://jamiagt.in/

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: