جگ بیتیاں، ہڈ بیتیاں


اختر شیرانیؔ مرحوم نے تو موئے عشق کو کستے ہوئے کہا تھا:
؎ قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
اور یہاں ہم اس شعر کی عملی توجیح بنے بیٹھے ہیں۔ سانحہ تو یہ ہوا حادثے کے بعد، دل کے پھپھولے جس بلاگ پوسٹ پہ سہلائے وہ غموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راہیءعدم ہوا۔ ہم نے بھی صبر شکر کرلیا کہ چلو بھئی ہم کون سا فیض احمد فیضؔ ہیں جو قسم کھائی ہو کہ
؎ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ایک تو کسی قسم کی رقم کا ہماری تحاریر سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا اور نہ ہی مستقبل قریب و دور میں ایسی کوئی امید نظر آتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے بہت سے دکھ خود ساختہ نوعیت کے ہیں۔ مطلب اسکا یہ کہ اگر ہم نہ ہوتے تو وہ کرب و الم بھی شاید ظہور پذیر نہ ہوتے۔ اب کل کی بات ہی لے لیجئے، ہمیں بیٹھے بٹھائے شکریئے کا بخار چڑھا ہوا تھا اور بلاوجہ قلق ہو رہا تھا کہ ہم نے آج تک ملی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا اور جبکہ نعمتیں رخصت پہ ہیں تو ہم علامتِ حزن و ملال بنے ہوئے ہیں۔ وجہ تسمیہ بیان کریں تو فقط اتنی تھی کہ ہمارا خانسامہ چھٹی پہ گیا اور پھر چلا ہی گیا، فون کرکے پوچھا تو شانِ بے نیازی سے بولا ابھی میری منگنی کی تقریب چل رہی ہے کل پرسوں بتاؤں گا کہ واپس آنا ہے یا نہیں۔ خیر، ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے۔ پھر ہمارا روم میٹ دفتر سے گھر لوٹا تو بخار میں دھت۔ کھانا پکانا ہمیں اتنا ہی آتا ہے جتنی سردیوں میں گیس۔ گیس سے یاد آیا کہ پاکستان میں جہاں جہاں سردی آتی جارہی ہے گیس وہاں سے رخصت لیتی جارہی ہے۔ اگلے سیزن کسی منچلے نے ایسا گانا بنا ڈالنا ہے ‘میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ ہیٹروں سے ڈرتی ہے، بڑی گیس بنی پھرتی ہے ہمارے چولہوں سے لڑتی ہے’۔
خیر، میں آپ کو بتا رہا تھا کہ روم میٹ بخار میں دھت تھا اور کچن میں گندے برتن ایسے بکھرے پڑے تھے کہ فیضؔ مرحوم دیکھ لیتے تو کہتے،
؎ جابجا بکھرے ہوئے سنک و شیلف پہ برتن
سالنوں میں لتھڑے ہوئے چکنائی میں نہائے ہوئے
خیر، مرتے کیا نہ کرتے بلند عزم و حوصلے کیساتھ کچن میں گھسے اور گندے برتنوں سے برسرِ پیکار ہونے لگے۔ گھمسان کا رن پڑا، اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کچن ہمارے جانے سے پہلے زیادہ گندا تھا یا بعد میں ہوا، بہر صورت ہم نے برتن ایسے تہِ سکاچ برائٹ کیئے جیسے ہمارے اجداد کسی زمانے میں مخالفین کو تہِ تیغ کرتے۔ یہاں ہم برتنوں میں گھرے تھے اور وہاں ٹی وی لاؤنج سے اس خشک سردی میں بھی ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ کی اشتہا انگیز آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، آپ میں سے جس جسے نے نرگس فخری کا اشتہار دیکھا ہے وہ اشتہا انگیز کا لطف پا سکیں گے۔ نرگس فخری بھی کیا خوب خاتون واقع ہوئی کہ تمام قوم کو ایک “پیج” پر اکٹھا کردیا، بقول شاعر
؎ بے خطر کود پڑی جنگ اخبار میں نرگس
محوِ خدوخال ہے غوغا کرتی عوام ابھی
آپ ذرا یہ اندوہ ناک منظر سوچیں تو سہی۔ کہ آپ یخ بستہ پانی سے چکنائی میں لت پت کولیاں اور پلیٹیں مانج رہے ہیں اور آپکا ذہن لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی جنگ اخبار پہ لگے اشتہار پہ ٹکا ہوا ہے۔ برتنوں کی ایسی ایسی چکنائی بھی اتری جو لگی ہی نہ تھی۔ خیر، قصہ مختصر، ہم نے برتن دھوئے گزشتہ روز کا بچا ہوا کھانا گرم کرکے کھایا اور دل مسوستے رہے کہ جب برتن دھلے دھلائے ملتے تھے ہم نے کبھی شکر نہ کیا، کھانا پکاپکایا ملتا تو نقص نکالتے آج سب خود سے کرنا پڑا تو کیسے احساس ہوا۔ تونہ تائب ہوکر سوگئے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ الحمدللہ ہمارے فلیٹ پر کبھی پانی کی قلت نہیں ہوئی۔ لیکن آج صبح ہم نے اٹھ کر حسبِ معمول جیسے ہی منہ ہاتھ دھونے کیلئے ٹوٹی کھولی تو ہوا کے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمیں یکایک احساس ہوا کہ باقی شکرییئے تو رات کرلیئے تھے پانی کا ذکر ہی کوئی نہیں ہوا۔ یہ صرف ہمارا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے کہ جب تک سر پہ نہ پڑے ہم بہت سی چیزوں کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں اور جب وہ نہیں ہوتیں تو پچتاتے ہیں۔ ہم نے تو ٹھان لی ہے اب کہ جب جیسے کی بنیاد پہ شکریئے کریں گے، آپ کا کیا ہوگا جنابِ عالی؟؟

One thought on “جگ بیتیاں، ہڈ بیتیاں

Add yours

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: