تزکِ نیازی – آٹو بائیوگرافی آف دا کنگ خان


Originally Published on PK Politics

ضروری نوٹ:  اس تزک کا انگریزی ترجمہ بنام “آٹو بائیوگرافی آف دا کنگ خان” بہت جلد نیویارک ٹائمز میں شائع کیا جائے گا

پیش لفظ:

آجکل دوسروں کے کارنامے اپنے سر لینے کا رواج عام اور نوسرباز ڈس انفارمیشن پھیلا کر عوام کو اصل حقائق سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں  جیسے انفراسٹرکچر کی بنیاد مہاتما نے جی ٹی روڈ کی تعمیر سے رکھی جس کا کریڈٹ آجکل میاں صاحب بڑی ڈھٹائی سے موٹروے کے نام پر لیتے ہیں۔ جعلسازی کی صنعت کی روک تھام ، برائے اصلاحِ ریکارڈ و اطلاعِ عوام، مہاتما نے بقلم خود  حیاتِ عظیم سے پردہ ہٹایا ہے، لکھنے والے پینل میں شامل ہیں جناب قیامت مسعود، مباشرت لقا، حسن ایثار، خلیفہ جی اور شیکسپئرِ جنوبی پنجاب جناب کلاسرہ کروڑوی ساب۔ کارنامے چونکہ طویل ہیں اور کئی جلدوں پہ مشتمل ہیں اس لیئے عوام کی آسانی کی خاطر چیدہ چیدہ واقعات بمعہ شرح رقم کردی گئی تاکہ سند رہے اور کبھی کام نا آسکے۔

آغاز:

“ماہِ الیکشن سنہ2013 میں عمرِ عزیز کے 62  ویں سال میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ۔”

ضلع پیدائش میانوالی تھا مگر بڑے مقصداور مظلوم عوام کی خاطر سب چھوڑچھاڑ لاہور آگئے۔ پڑھائی سے خاص شغف نہیں تھا مگر عوامی لیڈر ان پڑھ ہو نہیں سکتا، کرکٹ اور چند ایک دیگر کھیلوں سے بچپن سے ہی خصوصی لگاؤ تھا، محلے میں میری کرکٹ اور دیگر صلاحیتیں دیکھتے لوگ کہتے تھے کہ یہ ایک دن کپتان بنے گا۔ خیر وقت کا پہیہ چلتا رہا میری کرکٹ، سیاست اور عاشقی مشعوقی محلے سے نکل کر شہر، ملک اور دنیا بھر تک پہنچی. میں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی بجائے کاؤنٹی اپنا لی اور گلی کی بجائے انٹرنیشنل افیئرز۔میں بچپن سے ہی سٹار تھا، میری بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہی مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی والوں نے داخلہ دے دیا۔  یوں ایچیسن کالج سے جان چھوٹی، ایچیسن کا زندگی پہ عجیب اثر پڑا، کسے معلوم تھا کہ نقلی بالوں والا اصلی چوہدری کل کو وزیرِ داخلہ اور میرا سیاسی حریف بنے گا، ایسے ہی اور بہت سے کن ٹٹے تھے جنہیں کبھی میں نے لفٹایا نہیں آج میری برابری کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے ایسے نابغے میرٹ کی چھاننی سے نکلے کے بے اختیا ر میرٹ کے قتل کا جی چاہنے لگا ہے۔

دورِ آکسفورڈی و تحریکِ پاکستان

جیسا کے گزشتہ باب میں بیان ہوا کہ میری بے پناہ قائدانہ اور فائدانہ صلاحیتوں کے پیشِ نظرآکسفورڈ میں داخلہ مل گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب قائدِ اعظم کانگریس سے بددل ہوکر لندن آئے ہوئے تھے، اقبال کی تحریک پر میں نے محمد علی جناح کوحکماً واپس انڈیا بھیجا۔ میں چاہتا تو اسی وقت ملکی باگ دوڑ سنبھال کر ڈائریکٹلی نیا پاکستان ہی بنا دیتا لیکن پھر لیڈر کا وژن سامنے تھا کہ عمران اگر اس نوجوان کو آج موقع نا دیا تو کل کو بلونگڑے  تمھیں کس سے زیادہ عظیم ثابت کریں گے۔ جناح بھی میرے معتقد رہے تحریکِ پاکستان دراصل تحریکِ انصاف سے ہی متاثر ہوکر شروع ہوئی، دھاندلی والی بات پر وہ میرے دستِ راست بنتے اگر زندگی وفا کرتی۔ نام و نمود سے بندے کی طبیعت اکتاتی ہے ورنہ ضرور بتا دیتا کہ چودہ نکات، سول نافرمانی  اسی ناچیز کی ذہنی کاوشیں تھیں۔

تھوڑا عرصہ جناح کو آبزرو کیا اور جان لیا کہ یہ لڑکا جوشیلا ہے جو چاہتا ہے کرلے گا اسے اپنے حال پہ چھوڑ دو اور کرکٹ کو اپنا لو، یہ ہوتا ہے لیڈر یہ ہوتا ہے وژن۔

قیامِ انگلستان:

آکسفورڈ کیلئے گھر سے نکلتے وقت انسٹرکشنز ملی تھیں کہ بیٹا  فرنگیوں کے دیس سے خالی ہاتھ نہ آنا، پہلےورلڈ  کپ بعد میں بیگم لے کر آیا یہ ہوتی ہے فرمابرداری۔ دیگر واقعات محض اوراقِ پریشاں  ہے بس حبیب جالبؔ نے جیسے کہا

؎ یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا

  جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے

قیامِ انگلستان کے دوران شاعری سے شغف ہوا، میں تو پہلے ہی بے پناہ مشہور تھا سو اقبالؔ نامی اک نوجوان جسے پہلے اپنے خواب بھی سناتا تھا ، کو بھیجتا رہا کہ اپنے نام سے چھپوا کے مشہور ہوجائےبعد ازاں فیض احمد فیضؔ کو بھی اپنی مزاحمتی نظمیں بھیجتا رہا، عجیب بات ہے کے دونوں نوجوانوں کی فوتگی کے بعد شاعری کا شوق یکسر ختم ہوگیا۔ پاکستان بننے کے بعد زیادہ تر کرکٹ اور آنکھ مچولی کھیلی۔ کپ، بیگم اور ڈگری کے ساتھ وطن لوٹا ۔

تحریکِ نیا پاکستان:

کرکٹ سے فراغت کے بعد ہسپتال بنایا، اسکے بعد تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے پاکستان کی بنیادیں رکھنے کی کوشش کی، کسی نے ساتھ نا دیا لیڈا 15-16 سال کھجل ہوتا رہا، پھر ایک نورانی بابا پاشا سرکار ملے اور موری نیئا پار لگی، انقلاب کی راہیں روشن ہونے لگیں لیڈر قربانی کے بغیر نہیں بنتا سو لفٹر سے گرا، اور کچھ زیادہ ہی گر گیا۔ قوم فتوحات اور قربانیوں کو فراموش کرنے لگی سو دھرنے کی صورت غبارے میں ہوا بننے کی ٹھانی۔  مصداق اس سی گریڈ مثال کے،زمین ملی بنجر دوست ملے کنجر، مجھے پارٹی کے امور چلانے واسطے فرشتوں نے ایسے ایسے انسان مہیا کیئے کہ خدا کی پناہ، انہیں تو جنت میں بھیج دو وہاں بھی نقص نکال آئیں گے، کوئی تعلیمی طور پہ ذلیل کرواتا ہے، کوئی بیلٹ بکس اٹھا لے جاتا ہے، کسی کو اپنے جہاز کا زعم ہے کوئی اس غم میں خود جہاز ہوا پھرتا ہے۔ کسی کی اپنی پیری فقیری کی دکان چلتی ہے تو بی بی مزاری  میری سمجھ سے باہر ہے، یہ وہ پالتو ہے جو سال میں ایک بار ضرور مالک کو کاٹتا ہے۔ ورک جیسے با صلاحیت اور مبشر جیسے با ضمیر لوگ بھی مل تو گئے مگر پھر بھی،

؎ اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا

میرا دھرنا وہاں ٹوٹا جہاں پانی گرم تھا

دھاندلی اور دھرنہ:

نیا پاکستان مصالحہ مووی کی طرح بنانے کی کوشش کی تھی جس میں تمام مصالحہ جات رکھے مگر اللہ غارت کرے اس نورے کو، بڑی قسمت والا ہے جو مجھ سے بچ گیا۔ باقی گندے انڈے  میرے بستے میں تھےمیرے جلسے میں باغی باغی کے نعرے لگا کر میری ہی  واٹ لگا گیا، ان سے اچھا مشرف تھا، وزیرِاعظم بنا رہا تھا، ہک ہا، کیا وقت تھا۔ دھاندلی اور دھرنے کا وہی مرغی اور انڈے والا حساب ہےکہ کون پہلے آیا،  لوگ دھرنے کو میرے سیاسی کیرئیر کا عروج بتاتے ہیں اور سیانے میری سیاسی موت، خیر جو بھی ہو، لیڈر نہ ڈرتا ہے نہ ہارتا ہے۔ اتنے دن تو “شعلے” بھی نہیں چلی جتنے دن میرا  آئٹم چل گیا، اچھے پیسے مل گئے اب اس عمر میں کمائی مشکل ہوگئی ہے۔ویسے بھی وہ کیا بھلا سا کہا تھا اک شاعر نے

؎                                                  نہیں تیرا نشیمن بنی گالا کے صوفوں پر

                                                     تو لیڈر ہے چڑھا رہ کنٹینر کے زینوں پر

 دھرنے کی کرامتیں دیکھیں سوشل میڈیا پہ میرا راج ہے، اینکرز میرے اپنے، جہاز مجھے مل گیا، روبوٹس کی ایک فوج جو میرے یک جنبشِ لب پہ اپنے بزرگوں تک کو سرِ عام گالیاں دے دیتے ہیں، اور کیا چاہیئے، ہیں جی؟ یہ البتہ درست کہ آیا میں نورے کی ہمشیرہ والدہ ایک کرنے تھا اور میری اپنی خاندان کی تمام خواتین انہوں نے یکجا کردیں، اس نے

                    میرے ہی “بلے” سے میری دھلائی کی

                                                                   بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

دھاندلی تو اتنی ہوئی کہ الامان۔ ہم نے بلا اور شیر دو انتخابی نشان مانگے تھے جبکہ ہمیں صرف بلا دیا گیا جسکی وجہ سے ہمارے آدھے  ووٹ غلط کاسٹ ہوگئے، باقی مجھے اپنے مخالفین سے زیادہ دوستوں نے نقصان پہنچایا۔ ثبوتوں کے نام پر چولوں نے جتنی ردی اکٹھی کی تھی اسکو بیچ کر ہی جج کرلیتے۔ رہتی سہتی کسر میرے دھرنوی کزن مولوی طاہر نے پوری کردی، ایسا مردِ مومن ہے کس شان سے اپنی بات سے پھرتا ہے کہ مجھے بھی شرما دیتا ہے۔

اختتامیہ:

لوگ کہتے ہیں اتنا رولا ڈال کر دھرنا ختم کیوں کیا؟ بھئی ایک تو امپائر کی انگلی دغا دے گئی دوسرا غالبؔ کی بات ذرا دیر سے سمجھ لگی تھی

؎                     نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

ہماری تحریک ویسے ہی پر امن تھی ہم نے مزید طعنہ و تشنیع کے بغیر “جادو کی جپھی” سے کام چلانے کی ٹھانی۔  سیاسی کیرئیر کے عروج پہ شادی کیوں کی؟  پہلے لوگ نشہ کرنے کا الزام لگاتے تھے،  بھئی کلا بندہ کی کرے، نہ بیوی نہ بچے نا کوئی اور خاطرخواہ کامیابی، ڈگری والی بات کے بعد سے عائلہ بھی دور دوررہتی تھی ، شیریں مزاری اور نعیم الحق کے ہوتے شکر کریں میں صمد بونڈ کے نشے پہ نہیں لگ گیا۔ 35 پنکچر، پپو، 1 ارب د درخت، 350 ڈیم، زندہ لاشیں، گرم پانی، گیزر،  اور یو ٹرن اسی نشے کے سبب کی ذہنی اختراعات ہیں۔ ایسے میں  سامنے عوام پیچھے ریحام، یا سامنے گرتا یا پیچھے، سو لیڈر نے فیصلہ کرلیا، بیوی ریڈی میڈ بچوں کیساتھ مل گئی اور اب گھر میں ہی انٹرویو بھی ہوجاتے ہیں

؎ ادھیڑ عمر میں اچھا لگتا ہے

جرابیں جو جرابوں میں ملیں

 نشے لی لت چُھٹ تو گئی لیکن گھر اور سیاست کی  کھپ دیکھ کر سوچتا ہوں وہی نشہ اچھا تھا۔ مئی 2013 سے جو چمونےوقتاً فوقتاً لڑتے تھےدھاندلی کمیشن والے ڈاکٹروں نے اچھا علاج کیا ہے، مگر  انقلابی چورن اور  تبدیلی چینی سے پرہیز بتائی ہے کہ انقلابی چمونے سوئے ہیں  ابھی مرے نہیں۔

“ماہِ الیکشن سنہ2013 میں عمرِ عزیز کے 62  ویں سال میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ۔”

Update:

شنید ہے کہ دوسری شادی کی ناکامی کے بعد خان ساب نے تیسری کھڑکا لی ہے – واللہ اعلم

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: