شادی اور محبت


پوچھا شادی اور پسند کی شادی میں کیا فرق ہے۔ کہا، چھت سے خود چھلانگ لگادو یا کوئی دھکا دے دے، وہی فرق ہے حالانکہ دونوں صورتوں میں انجام ایک سا ہوتا ہے بس الزام فرق لگتا ہے۔ دھکا دینے والی کہانیاں زیادہ تر بے مزہ اور ایک سی ہوتی ہیں، کسی نودریافت شدہ بزرگ رشتہ دار کے یہاں آپکا/کی ہم عمر رشتہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے جو ایسے اچانک آتا ہے جیسے بی اے کا رزلٹ اور گلے ایسے پڑتا ہے جیسے غریب پہ پولیس کیس، کہ جائے مفر نہیں رہتی کوئی۔ البتہ خود چھلانگ لگانے والے واقعات عوام اور بالخصوص نوجوان نسل میں خاصے مقبول ہوتے ہیں،اخبارات بھری پڑی ہیں ایسی کہانیوں سے۔ بیوقوف جن سے بھاگنا چاہیئے انکے ساتھ بھاگ کے شادی کرلیتے ہیں اور پھر عمر بھر بھگتتے ہیں۔ آپ فلموں کی مثال لے لیں۔ لو اسٹوری کا انجام وہیں ہوتا ہے جہاں شادی یا رشتہ طے پا جائے۔ اور بالفرض اگر شادی شدہ کپل ہو شروع سے تو یقین کرلیں کے پوری فلم میں ہیرو نے کھجل ہی ہونا ہے۔
پسند کی شادی دراصل ناکام محبت کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اکثر محبت کسی سے اور شادی کسی اور سے کا رواج ہے، ترتیب میں فرق آجائے تو انجام بہت ہی برا ہوتا ہے۔ محبت وہی کامیاب ہوتی ہے جس کا انجام شادی نہ ہو۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو محبت کی لازوال داستان لیلیٰ مجنوں کی بجائے چاچے رشید اور مائی صغراں کی ہوتی جن کے شادی کے ابتدائی 17 سالوں میں 12 بچے ہوئے۔ مگر حقیقت کے برعکس مائی صغراں ہمیشہ “سانوں تے اجے سچا پیار ہی نئیں لبیا” کہہ کے روتی رہی۔ تفننِ طبع کے لیئے اس سچویشن کو انتقامِ محبت تو کہا جاسکتا ہے مگر محبت ہرگز نہیں۔ تو اس حساب سے ہیر رانجھا کی لو اسٹوری میں چاچا کیدو ولن نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ہیرو اور دونوں لورز کا محسن تھا کہ جس نے شادی میں اپنی لکڑ کی ٹانگ اڑا کر بروقت محبت کا ٹریجک انجام ہونے سے بچا لیا اور فریقین کو رہتی دنیا تک امر کردیا۔ محسن نقوی نے بجا فرمایا تھا کہ “چلو مان لیتے ہیں، محبت شغل ہے بیکار لوگوں کا” آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں رانجھا، مجنوں مرزا فرہاد سبھی ویلے بے روزگار اور بے کار لوگ تھے۔ کسی کام جوگے ہوتے تو کوئی خالہ پھپھو گھر سے ہی رشتہ دے دیتیں۔
پسند کی شادی تک نوبت دو صورتوں میں آتی ہے۔ ایک اظہارِ محبت اور دوسرا اقرارِ محبت۔ شاید بہت سوں کو یہ دونوں الفاظ ایک ہی جیسے معلوم ہوں مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اظہارِ محبت تب ہوتا ہے جب کوئی شخص الاعلان کہہ دے کہ “ہاں میری ایدھے ہتھوں ای لخی اے” جبکہ اقرارِ محبت میں “امب چوپن لی گئی جان کے پھڑی گئی” والا معاملہ ہوتا ہے، شاعر نے الفاظ کا سہارا لے کر “جان کے پھڑی گئی” لکھ دیا حالانکہ کوئی بھی جان بوجھ کر نہیں پھڑا جاتا۔ اس پھڑن پھڑان میں رقیبانِ روسیا یا محلے کے ریٹائرڈ بابوں اور مایوں کا ہاتھ ہوتا ہے، پہلے بھی بیان کیا کہ ان سی سی آئی ڈی کس کی ہوتی ہے، وہ تو چال دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ “کہاں ہیں نگاہیں، کہاں ہیں نشانہ”۔Tags:
محبت، شادی، لیلیٰ مجنوں، پسند کی شادی، لو سٹوری

2 thoughts on “شادی اور محبت

Add yours

Leave a Reply to be naam Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: