اوپڑ دی گڑ گڑ دی لالٹین


صبح آنکھ کھلی تو باوجود برسات ،  موسم بہار جیسی راحت پائی تو دل باغ باغ ہوگیا۔ کمرے کی لائٹ آن کی تو خلافِ معمول لائٹ آرہی تھی۔ٹی وی آن کیا تو جیو کے علاوہ تمام چینلز آرہے تھے اور ہر ایک چینل پر کوئی نہ کوئی خوشخبری چل رہی تھی، کہیں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو کہیں ملک بھر میں لاکھوں سکولوں کا قیام، سرکاری ہسپتالوں میں لوگ بیرونِ ملک سے علاج کروانے آرہے تھے تو کہیں نئے پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں میں داخلہ اور نوکری کے خواہشمندوں نے ایمبیسی کے سامنے طویل لائن لگائی ہوئی تھی۔ دارالحکومت  کے وسط میں ایک ٹوٹی ہوئی کشکول نصب کی جارہی تھی۔ دل ایسا خوش ہوا کہ میں ٹہلنے کو باہر نکل گیا، لوگ خوش خوش جارہے تھے، ہر بندے نے ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کررکھی تھی کہ ملک سے مہنگائی کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ سڑکیں شیشے کی مانند چمک رہی تھیں۔ لوگ تو لوگ چرند پرند بھی صفائی کا خیال کررہے تھے۔ سڑک کے دونوں جانب پھل دار درخت لگے تھے جن سے ہر خاص و عام بلاتخصیص پھل توڑ کے کھا سکتا تھا، قریب میں بہتی دودھ کی نہریں اور کہیں کہیں شہد کے تالاب۔ ایسے ایسے خوشنما پھول اور انکی اعلیٰ خوشبو مگر مجال ہے کوئی پھول توڑ لے۔ پولیس خال خال نظر آرہی تھی مگر بارعب تھی، تاجر سہمے سہمے تھے کہ کسی گاہک نے کنزیومر کورٹ میں شکایت کردی تو پھر خیر نہیں، ٹریفک کی پابندی ایسی تھی جیسے ویڈیو گیم کھیل رہے ہوں مجال ہے کوئی گاڑی لائن سے ایک انچ بھی ادھر کو سرک جائے۔عوام کے منتخب نمائندے سڑک کے اطراف ہاتھ باندھے مودب کھڑے تھے جیسے حکم کا انتظار کررہے ہوں، ابھی اس منظر کے سحر سے نکل نا پایا تھا سامنے سہراب سائیکل پر ایک جوشیلے نوجوان کو آتے دیکھ، غور کیا تو معلوم ہوا یہ خان صاحب تھے جو ملک میں انقلاب لانے کے بعد وزیراعظم بن چکے تھے اور پیچھے کیرئیر پہ صدرِ مملکت جناب شیخ الاسلام صاحب تشریف فرما تھے۔ اللہ اللہ ایسا ماحول کوئی سٹیٹس کو نہیں۔ ملک میں مکمل امن قائم ہوچکا تھا اور طالبان نے خاں صاحب کی امامت پہ اعتماد کا اظہار کرتے گرفتاری دیدی۔ آسمان سے فرشتے اتر رہے تھے اور پریاں پاکستان کا ویزہ لینے کو بیتاب ہورہی تھیں کہ اسی اثناء میں ایک بچہ سائیکل سے گرپڑا، عوامی نمائندوں اور عام شہریوں میں لڑائی شروع ہوگئی کہ اسکو ہسپتال کون لیکر جائیگا اور اسکے علاج معالجے اور دیکھ بھال کون کریگا۔ یہ منظر دیکھتے ہی فرطِ جذبات سے ہم دھڑام زمین بوس ہوگئے۔آنکھ کھلی تو آدھے صوفے پر اور آدھے فرش پر، گھڑی رات کے ڈھائی بجا رہی تھی اور سامنے ٹی وی پر خان صاحب چنگھاڑ رہے تھے،

او میاں صاحب پیار سے کہہ رہاہوں استعفیٰ دیدو ورنہ۔۔۔۔

دھاندلی ہوئی ہے، سونامی نہیں رکے گا

نوجوانو مغلِ اعظم کو نہیں چھوڑنا

میر شکیل الرحمٰن تم نے دھاندلی کی ہے، تمھارے کیمروں میں ہمارے لاکھوں جوان صرف ہزاروں نظر آرہے ہیں

عوام بے شک دیکھ لیں میرا مارچ قادری کے مارچ سے لمبا ہے

علامہ اقبال صاحب، آپ نے تو کہا تھا

“اٹھتے ہیں حجاب آخر، آتے ہیں جواب آخر”

تین دن ہوگئے آبپارہ کھڑا ہوں، جواب نہیں آرہا۔

پاشااااا – دیکھ رہا ہے نا تُو، کھجل ہورہا ہوں میں۔

میاں صاحب، اوئے میاں یہ سونامی بے قابو ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ذہن میں سعادت منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ والا گڑ گڑ دی لالٹین کردار آگیا اور لبوں پر اک بے ساختہ مسکراہٹ، سر جھٹکا، ٹی وی بند کیا اور لمبی تان کر سوگیا۔

نوٹ: مرکزی خیال شوکت تھانوی کے سودیشی ریل سے ماخوذ

One thought on “اوپڑ دی گڑ گڑ دی لالٹین

Add yours

Leave a Reply to Maria Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: