پیمپر لیگ


 نوٹ: یہ پوسٹ ان تمام افراد کیلئے “ہائی لی ریکمنڈڈ” ہے جنکے یہاں ماضی قریب میں کسی بچے کی پیدائش ہوئی ہے یا مستقبل قریب میں ایکسپکٹڈ ہے یا مستقبل بعید میں ارادہ رکھتے ہیں۔

ملکِ عزیز میں آجکل حالات بڑے ہی نازک موڑ سے گزر رہے ہیں۔ حالات تو خیر ہمارے بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کے بچپن سے ہی نازک موڑ سے گزر رہے ہیں، پتہ نئیں کتنا کوئی لمبا موڑ ہے کہ ختم ہی نئیں ہوریا۔ جیسے ماں باپ پانچویں جماعت سے بچوں کو کہنا شروع ہوتے ہیں بیٹا اگر پرائمری میں نمبر اچھے نہ آئے تو ساری زندگی دکھے کھاؤ گے اور یہ ڈراوا یونیورسٹی تک ساتھ رہتا ہے، بچہ پڑھ پڑھ پھاوا ہوجاتا ہے اور نوکری کے چکر میں دھکے ہی ملتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی ہر 10-15 سال بعد آرمی سے ٹھڈے شڈے کھاکر ہمارے سیاستدان بھی یہی کہتے ہیں کہ جمہوریت کو پنپنے دیا جائے ورنہ دھکے کھائیں گے سب بلاہ بلاہ اور ہوتا اخیر وہی ہے، جمہوریت جتنی پنپتی ہے اتنے ہی دھکے دیتی ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ تو “ان کومپیٹنس” ہے یعنی  آپ موچی سے حجامت بنوائیں گے تو ٹک بھی زیادہ لگیں گے اور کوجے بھی۔ برا ہو جمہوریت کا کہ زبان کو رکنے کی عادت نئیں ہوتی، دیکھئیے نا حالات سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی بات۔

خیر، بات حالات سے شروع ہوئی تھی تو جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی کے مصداق وہیں آتے ہیں۔  انہی نازک حالات کے بیچ پچھلے کوئی 2 مہینے میں الحمدللہ میرے بہت سے جاننے والوں کے یہاں اولاد کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ امر بھی ویسے غور طلب ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سےجاننے والوں کے یہاں ولادتیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ یعنی دنوں یا ہفتوں کے فرق سے۔ اب یہ محض اتفاق ہے یا پلاننگ، واللہ اعلم بالصواب۔

بچہ کہاں سے سیکھ کے آتے ہیں یہ تو پتہ نہیں مگر انہیں ابتداً صرف دو ہی کام آتے ہیں۔ ایک رونا اور دوسرا وہ جس کیلئے پیمپر استعمال ہوتا ہے۔      ہمارے زمانے اچھے تھے، جب ہر جا کچھے تھے۔ وہی پہنایا، گندا ہوا تو دھو کے سکھانے ڈال دیا اور اتنی دیر بچہ “فیشن” کرتا رہتا جیسے آجکل بہت سی ماڈلز  کرتی ہیں۔ آجکل عجیب عجیب مسائل ہیں۔ جن میں سے اکثر فیشنی ہیں جیسے کہ پیمپروں کا استعمال۔ پہلے لنگوٹ ہوتے تھے جو باہمی استعمال کے کام آتے تھے اور بڑے ہوکر “لنگوٹیے” بنتے تھے۔ اب پیمپروں کے دور میں جو بڑے ہوتے ہیں تو “۔۔تیے” بنتے ہیں ۔ اور یہ بذاتِ خود ایک ایسا ٹاپک پر ہے جس پہ ایک عدد بلاگ الگ سے چاہئے، وہ پھر سہی۔

pampersمہنگائی کا رونا آجکل ہرکوئی رو رہا ہے۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اتنا خرچہ کل ملا کے نہیں آتا جتنا صرف پیمپروں پر آجاتا ہے۔ اور یہ خرچ بھی ایسا ہے جسے “روکا” نہیں جاسکتا۔ اب بچے کو کیا سمجھایئے کہ بیٹا 25 روپے کا پیمپر ہے، آپ صرف چند سیکنڈ کی تسکین کی خاطر ضائع کردیتے ہو۔ نہ اسکا اختیار کرنے پہ ہے نہ روکنے پر! یا آجکل کے حالات کے تناظر میں یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے گورنمنٹ کو واقعہ ہوجانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ “اچھا، ہوگیا ہےِ” بالکل ویسے ہی اس تخریب کاری کا پتہ بھی بعد از زیاںِ پیمپر ہوتا ہے۔ اب اعتراض کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ بھئی اتنی ہی تکلیف ہے تو کیوں پیمپر پہناتے ہو، بچے کو کھلا چھوڑ دو۔۔۔ اچھا ہے ذرا ہاتھ پیر ہلائے گا نشو نما بھی اچھی ہوگی۔ تو انکے لیئے عرض ہے کہ بچے کو کیا پتہ کب کہاں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ دوسرا آپ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں جس دیوار پہ لکھا ہو “وہ دیکھو، گدھے کا بچہ پیشاب کررہا ہے” اسی کے نیچے سب سے زیادہ “ہنرمندی” دکھائی ہوتی ہے۔ وہاں آپ ایک نومولود سے کیا “ایکسپیکٹ” کرتے ہیں۔

اور بات معاشرتی خرابی کی آہی گئی تو عرض کرتا چلوں کہ یہ جو بھی کمپنیاں پیمپر اور اسی کیٹگری کی دیگر قابلِ ذکر و ناقابلِ ذکر اشیاء بناتے ہیں انکا بھی کوئی دین ایمان نہیں۔ بے ایمانی کی حد ہے یا کبھی انہوں نے اپنی پراڈکٹ کو “لائیو ٹیسٹ” نہیں کیا ورنہ جان جاتے کہ آٹھ دس گھنٹے نہیں چلتا ایک پیمپر!

آجکل جیسے رواج ہے کہ دو یا تین لوگوں کو ایک ہی مسئلہ درپیش ہو تو وہ مشترکہ حل تلاشنے کیلئے کوئی اتحاد، انجمن یا ایسا ہی کچھ نہ کچھ بنا لیتے ہیں۔ تو صاحبو جب ہن پیمپری خرچوں سے بلبلا اٹھے تو سر جوڑ کر بیٹھے کہ اب اسکا کیا حل نکالا جائے۔ نتیجتاً ہم نے ایک لیگ بنائی جس میں وہ تمام افراد جو پیمپروں کے ستائے ہوئے ہیں وہ بائی ڈیفالٹ ممبر ہیں۔ مقصد اس لیگ کا بچوں تک سستے اور معیاری پیمپر پہنچانا ہیں۔ انکے والدین کی جیبوں کو سکون فراہم کرنا ہے تاکہ وہ پیمپر کے علاوہ بھی کچھ خریدنے کی سکت رکھ سکیں۔ ہمارا لائحہ عمل بڑا واضح ہے۔ نو انڈر دا ٹیبل ڈیل۔ ٹوئیٹر پہ ٹرینڈ چلائے جائینگے، فیس بکی ایونٹس کریٹ کرینگے، دھرنے دبا کے ہونگے۔ چاہ پانی اور موسیقی کا انتظام بھی ہوگا دھرنوں پہ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریکِ دھرنا ہونگے۔ اور اس کیمپین کی کامیابی پر ہی فیصلہ کیا جائیگا کہ آیا ہمیں آئندہ انتخابات میں ایک منظم پارٹی کے طور پر الیکشن لڑنا چاہیئے یا نہیں، آپکی قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔

والسلام،

چاند تارا، راج دلارا

قوم کا مستقبل، پیمپروں کا مارا

4 thoughts on “پیمپر لیگ

Add yours

  1. پیمپر پلاسٹک جیسے مادوں کی نسل سے ہیں اور کئی صدیاں بھی گلتے سٹرتے نہیں ہیں۔ اپنی آسانی کے لیے ایک مصیبت گلے ڈال لی ہے جیسے پلاسٹک کے شاپر بیگ ہیں۔

  2. چونکہ میں خود اس موضوع پر ایک بلاگ رسید کر چکا ہوں لہذا اس پر برا کمنٹ کرنا آپ کے لیے مناسب نہ ہوگا اور اچھا کمنٹ کرنا میرے لیے مناسب نہ ہوگا 🙂

  3. پاکستان کے نازک ترین موڑ پر آپ نے بہت نازک معاملے کو اٹھایا ہے۔۔۔۔۔ تو جناب ذرا خیال کیجیے گا کہ اس سے ہمارے اعلی دفاعی اداروں کی بدنامی نہ ہو ۔۔۔۔۔نہیں تو پھر آپ کو بھی ــــــــــــــــ؟؟

  4. جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ۔ ایک پیمپر پر ہی کیا منحصر ۔ یہاں تو کئی لیگوں کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم نے اپنی بارات والے دن خود اپنے ہاتھ سے جیلٹ بلیڈ استعمال کرتے ہوئے شیو بنائی ۔ نہا کر نئے کپڑے پہنے اور چل دیئے ۔ پتہ نہیں کسی نے ہمارے نئے کپڑے بھی دیکھے تھے یا نہیں ۔ خیر بیوی لے کر آ گئے ۔ آجکل کے جوان جاتے ہیں بیوٹی پارلر اور دو گھنٹے جمع دو چار ہزار روپے برباد کر کے لوٹتے ہیں اور وقت پر آنے والے مہمان لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے ہیں ۔ ایک لیگ سمجھدار جواناں بھی لگے ہاتھوں بنا ہی دیجئے ۔ بہتوں کا بھلا ہو گا اور آپ کو بھی اس کا ثواب ملے گا
    http://www.theajmals.com

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: