شاعر اور دسمبر


سارے چھپ جاؤ دسمبر آ ر ہا ہے
ہنسنے کوئی نا پائے یہ مہینہ غم کا ہے

دسمبر سے پتہ نئیں سب کو کیا ویر ہے۔ ابھی آمکدا نئیں اور رونا دھونا پہلے شروع، دسمبر نہ ہوا تڑپ تڑپیا ہوگیا (اب اگر تڑپ تڑپیا کا نہیں پتہ تو بچپن میں سنی کہانی کے کسی اور ولن کا تصور کرلیجئے)۔ شاعر ہو یا گلوگار سب نے حسبِ توفیق اس کو رگڑا ہے۔ شاعروں نے تو دسمبر کو حوا ہی بنادیا ہے، یقین نہ آئے تو خود دیکھ لیجئے (دسمبری شاعری 1 2 3 4 5 )۔ دسمبر کا تصور ہی ایسا خوفناک بنادیا ہے جیسے بچپن میں مارچ (امتحانوں اور رزلٹ) کا تصور، کہ موصوم بہ ماہِ اجتماعی بستی (اجتماعی اس لیئے کہ ہمارے یار دوست بھی ہم ایسے لائق فائق ہی تھے اور تقریباً ایک ہی جیسے اکرام سے نوازے جاتے تھے) شاعروں سے بچی خود نہیں پھنستی اور نام دسمبر کا! خود جا کے اس سے بات کر نہیں سکتے اور کوسنے دسمبر کو۔ دھند کے موسم میں “آنکھ دھندلائی تھی شہر دھندلایا نا تھا” ہی ہوگا نا۔ بندہ پوچھے بھئی دسمبر نمانے نے آپکا کیا بگاڑا ہے؟ دسمبری دکھڑوں کی روداد تو ویسے جعفر بھائی نے کمال بیان کی ہے جس کے سبب ہمارے دسمبر میں پیدا شدہ  ایک دوست کی کافی واٹ لگائی جاچکی ہے۔

 مستی شعراء کی ہوتی ہے عشاق بے چارے ایویں ہی شرمندہ ہوئے پھرتے ہیں۔ کسی کو زکام لگے تو وہ بھی چھپ چھپ کر ناک سنگھوڑتا ہے کہ کہیں اس پہ اشک باری کا الزام نہ آجائے۔ محبوباؤں بیچاریوں کی تو خوامخوہ ہی مٹی پلید ہوتی ہے اس مہینے۔ جسے ذرا ٹھنڈ لگ جائے وہ ایک درد بھری نظم لکھ مارتا ہے محبوبہ پر اور وہ بیچاری بیٹھی یہی سوچتی رہتی ہے “ہن میں کی کیتا” اور دوسری طرف دوشیزاؤں کا بھی یہی حال ہے۔ کولڈ کریم نے خشکی ختم نہ کی تو فٹ دسمبر کو کوسنے دینے لگیں گی کہ خشک مزاجی کا موسم ہے۔ عاشق بیچارہ جس نے 11 مہنیے خوار ہو ہو کر دسمبر تک  عشق ٹپایا تھا سر پیٹ لیتا ہے کہ ایک سردی اوپر سے سردمہری “ہن چڑی وچاری کی کرے، ٹھنڈا پانی پی مرے”
ویسے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اس موسم میں مونگ پھلی محبوب سے زیادہ دلنشین لگتی ہے (مونگ پھلی بستر میں نیم دراز ہوکر لحاف اوڑھ کر انجوائے کی جاتی ہے جبکہ صنفِ دیگر کیساتھ ایسا کرنے میں بہت سی شرعی و قانونی قباحتیں ہیں- واللہ اعلم بالصواب)۔
شاعر تو ایک طرف رہے، گلوکاروں نے تو ایسی نظر لگائی کہ جب سے ابرار الحق کا بھیگا بھیگا دسمبر آیا  دسمبر میں بارشیں ہونا بند ہوگئیں۔ سارا دسمبر خشک سردی پڑتی ہے، ٹکا کے دھند ہوتی ہے اور انکے مداح گرم لحافوں میں کھانستے کھانستے “بھیگا بھیگا دسمبر” انجوائے کرتے ہیں، باز پھر نہیں آتے۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ دوستو، دسمبر بہت پیارا مہینہ ہے، اسکو انجوائے کریں، چولیں مار دکھی شاعری اور پرائی معشوقوں پیچھے ضائع مت کریں۔

9 thoughts on “شاعر اور دسمبر

Add yours

  1. یہ دسمبر کا وکیل بننے کا کیا لیا آپ نے ، برف کے گولے یا پھِر مونگ پھلی کی بوری؟َ؟؟۔ ہا ہا ہا بہت خوب جی پڑہ کر بہت لطف آیا۔

  2. دسمبر میں اداسی ایک تو دسمبر کے موسم کا اثر ہے اور دوسرے سال کے ختم ہونے کی وجہ سے دل میں طرح طرح کے خیالات بھی آتے ہیں کہ نہ جانے اگلا برس کیسا ہو اور دسمبر میں دسمبر کو یاد کرنا اچھا لگتا ہے بس نا ۔

  3. کبھی جون جولائی میں لوڈشیڈنگ کے سبب پسینے سے نچڑتی ھوئی قمیض پہنے بھی عشق کرنے کو دل چاہا ہے کسی کا کبھی؟
    اس موسم میں عشق کے بھیگے بھیگے خیال نہیں آتے۔
    بس یہی خیال بار بار آتا ہے۔
    اوئے ہوئے ہوئے ہوئے ہوئے۔ بڑی گرمی اے یار۔ مت وج گئی اے۔۔۔۔۔۔:)

Leave a Reply to ماریا Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: