عالم پناہ اور انمول رتن


the_emperor_bahadur_shah_ii_enthroned
کچھ روز قبل ہم نے کارپوریٹ ورلڈ کے شیر شاہ سوری کے بارے قلم تمیزی کی اور ان الفاظ پر بلاگ شریف کا خاتمہ بل خیر فرمایا کہ:
“آج یونہی موسم کی ادا دیکھ کر صاحب یاد آگئے، نجانے کہاں ہونگے اور کسکا ستیاناس کررہے ہونگے، بس ہم دعا گو ہیں کہ جہاں رہیں خوش رہیں ‘حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا’” تو کچھ دیرینہ دوستوں نے تھا، کو ہے، اور نئے مقام و مرتبے اور کرداروں پر روشنی ڈالی۔  ۔ ہم تو موقع دیکھ کر صاحب کو یہ کہہ کر چلتے بنے کہ “کیسی وفا کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا، تو اے سنگدل تیرا سنگِ آستاں کیوں ہو’ البتہ ہمدم ہائے دیرینہ کے ہاتھوں ہم اتنا مجبور ہوئے کہ ‘وڈا صاحب’ کا پارٹ ٹو لکھنے پر اتر آئے جس میں انکے انمول رتنوں کا مختصر تعارف بھی عود آیا ہے کیونکہ انکا تفصیلی احاطہ کرنے کیلئے ایک الگ دفتر درکار ہے۔
بارے انکشاف یہ ہوا ہے کہ شیر شاہ سوری صاحب آج کل ایک کارپوریٹ ٹائٹینک کے کپتان ہیں اور خود کو محمد بن قاسم سمجھ رہے ہیں جو  کمپنی کے معصوم ملازمین کو کومپٹیشن  (competition)کے راجہ داہر کے چنگل سے نکالنے کیلئے بلائے گئے ہیں۔ ملازمین البتہ اس ستم ظریف کو ڈھونڈنے میں ہمہ تن مصروف ہیں جس نے خط لکھ کر صاحب کو بلایا۔ جوش و ولولہ بھلے محمد بن قاسم جیسا ہے مگر ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت وہی مغل بادشاہوں والی بدستور قائم ہے۔ گزشتہ کمپنی میں افسر شاہی ذرا کم تھی جو یہاں آکر اختیارات کے ساتھ مزید بڑ گئی ہے اس لیئے یہاں کے باسی انکو عالم پناہ کہہ کر پکارتے ہیں اور عالم پناہ اب اکیلے نہیں انکے اردگرد انمول رتن بھی ہیں جو اپنی ذات میں ایک مکمل صاحب ہیں، یہ عالم پناہ کی جی حضوری بھی کرتے ہیں، انکا دل بھی بہلاتے ہیں اور عوام الناس کو بادشاہ سلامت سے حد درجہ دور رکھنے کی ڈیوٹی بھی سرانجام دیتے ہیں۔
اصل نام لکھنے کی تو اب بھی مجال نہیں البتہ کسی نہ کسی مشابہت کے تحت مغل بادشاہ کے انمول رتنوں والے ناموں سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔ ایک بیربل ہے جو جتنا سیریس بننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی مزاحیہ لگتا ہے۔اسکا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے جہاں راجے اور فورڈ ویگنیں بکثرت پائی جاتی ہیں، موصوف خود کو راجوں مہاراجوں کی نسل قرار دیتے ہیں مگر عوام الناس کا شک فورڈ ویگنوں پر بدستور قائم ہے۔ ایک مان سنگھ ہے جو سی آئی ڈی کا چیف بھی ہے کہ بیشتر انفارمیشن اسی کے توسط سے عالم پناہ تک پہنچتی ہے، وہ حسبِ توفیق عوام الناس پر رعب جمانے کا کام بھی کرتا ہے۔ بادشاہ سلامت کے تمام رتنوں میں سے یہ عوام میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔ ادائیں زنانہ مائل ہیں، کمال کی بات یہ ہے کہ سائیڈ اے اور سائیڈ بی ایک سی ہیں۔ اسکو کمپنی کی فرسٹ لیڈی کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ عوامی حلقے موقع کی مناسبت سے اسکی بیستی ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ ایک ٹوڈی مل ہے جو بے دھڑک لوگوں کی باتوں میں حسبِ توفیق مصالحہ لگا کرپیشِ خدمت کرتا ہے۔ چاپلوسی کرتا اور صاحب کمال کرتا ہے۔ ایسا رتن مغلوں کے پاس ہوتا تو ضرور وزیرباتدبیر ہوتا مجال ہے جو ہاں میں ذرا سی بھی ناں ملائے۔ حسبِ موقع لگائی بجھائی بھی کرتا رہتا ہے۔ ظاہری فاصلہ سب سے زیادہ اسی کا ہے مگر دل کے بے حد قریب رہتا ہے، ہر “خبر” پر نظر اور لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ رکھتا ہے۔یہ گزشتہ زمانوں کے کبوتروں سے تیز اور بھروسہ مند رپورٹر ہیں۔ مشورے بھی دیتے ہیں، دل بھی بہلاتے ہیں اور صاحب کا موڈ خراب ہو تو ڈانٹ بھی بخوشی سنتے ہیں۔
عالم پناہ کی طبیعت میں سنجیدگی اور غصے کی کثرت ہوگئی ہے جس کا سبب چند ناعاقبت اندیش دائمی قبض کو گردانتے ہیں۔ طبیعت میں انتہائے درشتی کا ایک سبب تو ٹائٹینک کی روز بروز دگرگوں ہوتی حالت اور نان پرفارمنس کے آئس برگ کو دیکھتے ہوئے بھی ایسے آنکھیں بند کرنا جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر کرتا ہے۔  انمول رتن البتہ سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں، کمپنی دیوالیہ پن کے دوراہےپر آن پہنچی مگر انمول رتن ابھی تک “دلی ہنوز دور است” پہ قائم ہیں۔ مزاج کی تیزی کیساتھ ساتھ صاحب مزید شکی مزاج ہوگئے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ گھر سے منگائے کھانے میں نمک تیز تھا تو ہفتہ بھر بھابھی سے ناراض رہے کہ تم یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں تیز نمک کھلا کر مجھے قتل کرنا چاہتی ہو۔ اور حساس اتنے ہوگئے ہیں کہ انکے روزانہ خطاب کے دوران کوئی بندہ اگر اپنے موبائل فون کی طرف دیکھ لے تو بے اختیار پوچھتے ہیں “ریکارڈ تے نئیں کرریا کدرے؟”۔ جیسے جیسے دنیا آٹومیشن کی طرف جارہی ہے صاحب اسی رفتار سے پیچھے کو چل رہے ہیں۔ قدامت پسندی پر بدستور قائم ہیں اور آج بھی انیس سو ڈوڈھ والے طریقہ مینجمنٹ پر قائم ہیں اور ناقدین تو غالبؔ کے اس شعر کو صاحب کا کتبہ قرار دے رہے ہیں ‘تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ ، سرگزشتہ خمار رسوم و قیود تھا’۔ کمپیوٹروں کے ہوتے ہوئے بھی ہر صبح رپورٹس، جنہیں سیلز ٹیم ناکردہ گناہوں کا پلندہ کہتی ہے، کے پرنٹ کروا کر ٹیبل پر رکھوا لیتے مگر مجال ہے جو کبھی انکودیکھتے ہوں۔ رپورٹس اور صاحب کا رشتہ بالکل پرانی اردو فلموں جیسا ہے جہاں ہیروین ناچ ناچ پاگل ہوجاتی اور ہیرو صمً بکمً بنے کھڑا رہتا۔ ایک بار آفس بوائے نے پوچھا کہ سر انہیں ردی میں بیچ دوں خوامخواہ گند اکٹھا ہورہا ہے تو ارشاد فرمایا ارے جاہل تو نہیں جانتا یہ کیا ہے یہ کامیابی کی کنجی ہیں، اگر ردی والے کے ہاتھ لگ جائے تو وہ راتوں رات ترقی کرجائے۔ آفس بوائے جاہل ہی تھا  تہہ لب بڑبڑاتا رہا سر تواڈی تے اج تک ترقی ہوئی نئیں اس غریب دی کی ہونی اے۔ یہی حال اخبار کا کرتے۔ خبروں کو کائی لگ جاتی مگر صاحب توجہ نہ فرماتے۔ کسی نے کہہ دیا کہ بڑے لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اسی روز کتابوں کا ڈھیر ایسے لگویا جیسے “چھیتی دوڑھیں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں” اور اسکے بعد کبھی “مڑ خبر نہ لئی آ” اب دیمک ہے کہ صفحوں پر ناچتی پھرتی ہے ‘تھیا تھیا تھیا تھیا’
خمارِ اقتدار کا عالم یہ ہے کہ جہاں پناہ معمولی سی غلطی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ کمپنی ملازمین کو ذاتی ملکیت سمجھ کر حسبِ منشاء گھریلو کاموں کیلئے بروئے کار لاتے ہیں اور تمام ملازمین کی تمام تر کامیابیوں و کامرانیوں کو اپنی انتھک محنت کا ثمر کہتے جبکہ ناکامیوں کو نطفے کا کمال گردانتے ہیں۔ جوں جوں عہدہ بڑھتا جارہا ہے صاحب کو فحش گوئی کا شوق ہوتا جارہا ہے۔ اکثر عوام الناس میں بیٹھے بیٹھے اپنے نہ ہونے والے بچوں کا قصہ لیکر بیٹھ جاتے یا گندے لطیفے سناتے۔ تھری ایڈیٹس مووی کا اثر اتنا ہوا کہ ایکسلینس پر زور دیتے رہتے اور وقت کی اہمیت پر تو اتنا اصرار کرتے کہ بعض اوقات کسی ایک کے پانچ منٹ ضائع کرنے پر گھنٹا بھر وقت کی اہمیت و افادیت پر لیکچر دیتے اور 20 لوگوں کا گھنٹا برباد کردیتے۔ طعنہ و تشنیع میں صاحب کو ملکہ حاصل ہے، انکے آگے تو ویلی مائیاں بھی کان پکڑتی ہیں۔ اگر یہ صنف ادب ہوتی تو شاید صاحب اسکے استادوں میں ہوتے۔ انکی لاجکس عجیب ہوتی ہیں، سنی سنائی اڑا دیتے ہیں مثالاً وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک بندہ ولایت سے منطق پڑھ کر دیس کو لوٹا اور لوگوں کو منطق یعنی لاجک سمجھانے کیلئے مجمع سے ایک شخص سے پوچھا ‘گھر میں کتا ہے؟’ اسنے کہا ہے۔ بولا یقیناً تمھاری ماں کے پاس ڈھیر سارا زیور بھی ہوگا۔ کہا ہاں ہے۔ بولا اسکا مطلب تمھاری فصلیں اچھی ہوتی ہونگیں۔ کہا ہاں بالکل۔ بولا تمھارا باپ صبح سویرے کھیتوں کو نکل جاتا ہوگا اور بڑی محنت کرتا ہوگا فصلوں پر۔ کہا ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ بولا تمھاری ماں دھوپ میں اسکے لئے روٹی بنا کر لے جاتی ہوگی اور رات میں میں ٹانگیں بھی دباتی ہوگی۔ کہاں ہاں بالکل صحیح۔ بولا منطق سے ثابت ہوا تمھاری ماں ایک نیک عورت ہے۔ اب وہ شخص جب اپنے حلقہ احباب میں جاکر منطق سمجھانے لگا تو پوچھا ‘تمھارے گھر کتا ہے’ جواب دیا نہیں، کہا منطق سے ثابت ہوا تمھاری ماں نیک عورت نہیں۔ طوالتِ تحریر کا خیال آجاتا ہے ورنہ ایسی بے شمار چولوں سے صاحب کے روز و شب بھرے پڑے ہیں۔ باقی پھر سہی۔

2 thoughts on “عالم پناہ اور انمول رتن

Add yours

  1. بہت مزہ آیا پڑھ کر … بار بار پڑھنے سے اور مزہ آیا 🙂 ‘اور سہی’ کا انتظار رہے گا 🙂

Leave a Reply to ماریا خان Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: