وڈا صاحب


کہتے ہیں قسمت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے بھی کتا کاٹ لیتا۔ بس یونہی سمجھئے ہم بھی ایک اونٹ پر بیٹھے تھے کہ “دُور کے سہانے ڈھولوں” پیچھے خود کو کارپوریٹ کتے سے کٹوا لیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اسکے “ٹیکے” پیٹ میں نہیں لگتے  اور جہاں لگتے ہیں دکھتے بھی بہت ہیں۔ خیر، اس پورے جنجال پورے میں فائدہ یہ ہوا کہ وڈے صاحب کی صحبت و قرابت نصیب ہوئی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ جیسے کسی نے حکیم لقمان سے پوچھا کہ آپ نے کس سے سیکھا تو بولے بیوقوفوں سے۔ پوچھنے والے نے صد حیرت سے دریافت کیا کیسے؟ تو حکیم لقمان بولے وہ جیسا کرتے تھے میں اسکے برخلاف کرتا۔ تو احقر کی ننھی منی کامیابیاں جن کو حاسدین کسی ٹی سی نام کی شہ کا کمال گردانتے ہیں وہ دراصل وڈے صاحب کے راہنما اصولوں کے برخلاف کرنے سے ہی ممکن ہوا ورنہ من آنم کہ من دانم البتہ ناچیز کی طبیعت میں جو اوچھا پن ہے وہ ادھر ہی کا فیضان ہے۔

دراز قد تھے اور عقلِ سلیم گٹوں میں، بلکہ سہیل احمد عرف عزیزی کی زبان میں اتنے لمبے کے ہاتھ سے بچہ گرے تو فوت ہوجائے۔ گنجل گنجل بال جنہیں باترکیبِ حکیماں یکجا کرکے سر مبارک کے مختلف حصوں پہ جیل کی مدد سے چسپاں کرتے۔ کبھی ترنگ میں آکر گنگناتے تو نوجوانوں کی طرح بالوں کو ایسے سیٹ کرتے جیسے آجکل کے بچہ لوگ گرلز کالج کے سامنے کھڑے ہوکر کرتے ہیں۔ ادائیں انکی کسی حسینہء خیال سے کم نہ تھیں، لچک مٹک کر چلتے گویا کیٹ واک کررہے ہوں۔ اکثر کہا کرتے کہ میں جب تمھاری عمر کا تھا تو جس گلی سے گزرتا لڑکیاں عاشق ہوجاتیں، ہمیں اس پہ اعتراض تو کوئی نہیں البتہ ان خواتین سے ہمدردی ضرور ہے، اور یہ بھی آشکار ہوا کہ صاحب مستنصر تارڑ کو پڑھتے رہے ہیں ورنہ کبھی یہ بڑھکیں نہ مارتے۔ عمر بارے بس قیاس ہی ہے کہ اکثر کہا کرتے جتنی تمھاری عمر ہے اتنا میرا تجربہ۔  اب پتہ نہیں کس چیز کا تجربہ مراد تھا کیونکہ کام وغیرہ جیسی کوفت کبھی اٹھاتے انہیں دیکھا نہیں۔ بقول انکے اگر وہ امریکہ میں ہوتے تو سٹیو جابز کی بجائے آئی فون وہی ایجاد کرتے۔ کام وہ اتنا ہی کرتے اور جانتے تھے جسکے بارے مثالاً اردو ادب میں وہ محاورہ ‘ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا’  استعمال ہوتا ہے۔ بزنس نالج اور انڈرسٹینڈنگ بارے عرض کروں کہ پارسال جب کمپنی میں آٹو میشن کا طنطہ اٹھا تو ایک لڑکا جو آٹومیشن پر معمور تھا سب کو رپورٹس آٹومیٹ کرکے دے رہا تھا اور صاحب کا کوئی کام ایسا نہ تھا جو آٹومیٹ ہوسکتا مگر پندارِ پروفیشنلزم کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسکی سیٹ پر آدھمکے اور گویا ہوئے ‘یار توں ساریاں نوں رپوٹاں دینا ایں، کج مینوں وی دے دے، وہ بولا سر تسی دس دیو کی چائی دا، صاحب بولے ‘یار کج وی بنا دے بس منیوں وی ای میل کریا کر سویرے سویرے’۔حاسدین کہتے ہیں کہ ناز نخرے اور غمزہ و غشوہ و ادا کی وجہ سے ابتدائے  کیرئیر سے ہی ‘وڈا صاحب’ انکی چھیڑ بن گئی اور بعد ازاں  بحکمِ سرکار وہ افسر قرار پائے اور سبھی بڑے چھوٹے انہیں وڈا صاحب کہنے لگے۔ عجب اک شانِ بے نیازی تھی انکی ہر ادا میں۔ کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اداسیوں کا بن۔ کام کی باری ہوتی تو ڈرائیور اور آفس بوائے کانفرنس روم میں تمام افسرانِ بالا کے مدِ مقابل مشورے دے رہے ہوتے اور کہاں ایک آفس بوائے کو ہفتے بھر کیلئے ایکسپیل کردیا کہ قیمے بجائے آلو والے سموسے لے آیا تھا۔شکی مزاج ساس کی طرح اپنے ماتحتوں کی نشست و برخاست پر خصوصی نظر رکھتے تھے۔ کون کس سے کیا بات کرتا ہے کون کس کو ناپسند کرتا ہے سب کی سی آئی ڈی پر ہمہ وقت تین چار چیلے معین رہتے۔ باقیوں پر اتنا کنٹرول تھا کہ واش روم بھی پوچھ کر جاتے۔ البتہ ہمیں سکول کالج میں ‘گھوٹ’ کر رکھنے والی ایکسرسائز نے کافی فائدہ دیا۔

امتیاز تاج صاحب نے ناحق چچا چھکن کا چرچا کیا، کاش وہ کبھی ہمارے وڈے صاحب کو کوئی کام کرتا دیکھ لیتے تو ضرور بعنوان انہی کا انتخاب کرتے اور انکی تحریر میں مزید شائستگی اور بزلہ سنجی ہوتی ۔ معمولی بزنس ریویو ہو یا کسی پراجیکٹ کا پرفارمنسی جائزہ، ایک دیکھنے لائق منظر ہوتا۔ آفس بوائے اور ڈرایئور سے لیکر تمام ڈپارٹمنٹس کے متعلقہ اور غیر متعلقہ افراد کا جمِ غفیر اکٹھا ہوتا۔ چائے پانی اور سموسے ایسے چلتے جیسے انہی کا ریویو ہے۔ جتنے لوگ بنفسِ نفیس موجود ہوتے کم و بیش اتنے ہی ٹیلیفون پر آن لائن ہوتے اور ہمہ تن گوش بھی کیونکہ کسی بھی لمحے انکی استادی رگ پھڑک اٹھتی اور سوال داغ دیتے۔ استاد اچھے تھے، بقول شخصے اتنی غلطیاں سکول کالج میں نہیں نکلیں جتنی صاحب نے نکالیں، بلکہ ایک ستم ظریف نے تو چیخوں بارے بھی یہی کہا۔ ایک اور کمال  یہ بھی تھا کہ کبھی متعلقہ شخص سے اس کام بارے رائے نہ لیتے  اور نتیجتاً مزید الجھتے اور کام بھی لٹکتا۔ خود کو پرفیکشنسٹ کہتے اور کہلواتے، ایفیشنٹ اتنے کہ نو عورتوں کو جمع کرکے مہینے بھر میں بچہ تیار والی فلاسفی پہ یقین رکھتے اور ایفیکٹو ایسے کہ بقول شخصے اگر صاحب عورت ہوتے تو بچہ جننے میں بھی اٹھارہ ماہ لگادیتے۔ اسی بھاگم دوڑ میں اخیر وہی ہوتا جسے عرفِ عام میں ‘دو ملاؤں میں مرغی حرام’ کہا جاتا ہے۔ مینجمنٹ کام مانگتی تو جواب یہی ہوتا ، تالیف نسخہء ہائے وفا کر رہا تھا میں، مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا۔

اپنے آپ کو کارپوریٹ دنیا کا شیرشاہ سوری قرار دیتے کہ اسنے بھی کم ترین عرصہ میں ریکارڈ کام کیا۔ انکے دورِ اقتدار میں بھی کام اتنا اور ایسا ہی ہوا جتنا پی پی پی کی گزشتہ حکومت میں کہ شوروغوغا بے انتہا، بڑھکیں دن رات مگر پراگریس ندارد۔ ساری دنیا میں پرفارمنس اور پراگریس کا انڈیکیٹر شرحِ نمو ہوتی ہے مگر صاحب بضد تھے کہ پرفارمنس اور پراگریس کا مطلب ہر ماہ گراف کا پچھلے سے مختلف بک مارک۔ شیرہ شاہ سوری تو نہیں مگر مغلوں والی چند خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ایک چھوٹی سی کمپنی کے معمولی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی صاحب خود کو بادشاہ سمجھتے۔ ماتحتوں کو ذاتی ملکیت سمجھتے اور غلطی کے باوجود رعب برقرار رکھنے کیلئے ہفتہ وار خصوصی بستی پروگرام چلتا، آخر آخر تو لوگ باقاعدہ انجوائے کرنے لگے اور بستی بارے جگتیں بھی کرتے۔ ایسے ہی کئی واقعات سے انکی زندگی بھری پڑی ہے۔ ایسے ناحق بے عزت ہوکر ہمارا ایک پٹھان کولیگ اکثر کہا کرتا تھا ماڑا یہ ہمارے ساتھ ایسے کرتا اے گھر میں زنانی کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوگا، کہیں مل جائیں بھابھی تو سلیوٹ کرونگا انکا حوصلہ ہے۔

آج یونہی موسم کی ادا دیکھ کر صاحب یاد آگئے، نجانے کہاں ہونگے اور کسکا ستیاناس کررہے ہونگے، بس ہم دعا گو ہیں کہ جہاں رہیں خوش رہیں ‘حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا’

13 thoughts on “وڈا صاحب

Add yours

  1. خوب نقشہ کھینچا ہے بھیا۔ خاکہ نگاری کی طرف توجہ دی جئے بہترین کاکوں کے خاکے لککھ سکتے ہیں 🙂

    1. اطلاع فراہمنے کا شکریہ۔ یہی لکھا ہے، بادشاہت کے ضمن میں کہ دو ٹائپ کی بادشاہت ہے ایک میں جی ٹی روڈ بنتی ہے اور ایک میں تاج محل تو صاحب ہمارے، شیر شاہ سوری نہ سہی مغلوں والی ادائیں بدرجہ اتم مجود تھیں۔

  2. اور تو کہتا ہے وڈے صاحب کی صحبت اور قرابت پہ بھی ٹی سی کا طعنہ نہ ملے؟
    ہاں سہی ہے، ٹی سی تو اس سے پہلی سٹیج کو کہتے ہیں
    اعتراز نہیں اعتراض
    اور سکول والی عادت گھوٹنے والی ہوتی ہے یا “کوٹنے” والی؟ کیون میرے بچپنیہ کانسیپٹ خراب کر را اس پچپنی میں؟
    فٹ لکھا، پہلا پیرا گراف پڑھ کے ہی دس بٹا دس نمبر پکے کر دئے تھے 😀

Leave a Reply to ابرار قریشی Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: