شوہر کی تے نخرہ کی



(باس و بیگم سے معذرت کیساتھ)

شوہر بیگم اور باسایک تو میں پہلے ہی خواتین کے عالمی دن والی بات سے نالاں تھا اوپر سے باس و بیگم کی لا محدود خواہشات و توقعات کے بیچ پنگ بانگ بن کر اور تلملا گیا۔ سو نوکری اور شوہری کا تقابل کرنے کی ٹھانی ہے۔آخر کس نے یہ دن الاٹ کئیے ہیں؟ اور رولز بنائے ہیں؟ اور کیا ‘آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا”۔ یقیناً نہیں ہوگا تبھی تو ہم ایسے رُل رہے ہیں۔ پورے کیلنڈر پہ کوئی دن حقوقِ مرداں کیلئے مختص نہیں۔ اتنی زیادتی تو پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ نہیں ہوتی جتنی ہمارے ساتھ۔ خیر، بات یہاں دوسری ہے۔ وہ غالبؔ مرحوم نے جو کہا تھا نا ‘اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا” تو اسکی سمجھ شادی شدہ ہونے کے بعد آئی۔ نوکر والی بات تو خیر پہلے سے پتا تھی مگر شوہر بننے کے بعد ‘لگ پتا گیا ہے’۔ سوچا تھا شادی ہوجائیگی تو آفسی اور باسی خوشامدوں سے جان چھٹ جائیگی۔ مگر در حقیقت ‘کھجور سے اچھلا، آسمان میں اٹکا’ والا معاملہ ہوا۔

نوکری میں باس اور شوہری میں بیگم، مقام و مرتبہ میں ایک جیسے اور اگر دیکھا جائے تو دونوں اک دوسرے کی ضد ہیں، سوکنوں والا رشتہ سمجھ لیں۔ دونوں سے رشتہ ایجاب و قبول اور جانبین کے دستخط کے بعد باقاعدہ لکھت پڑھت سے طے ہوتا ہے۔ اور یقین جانئیے دونوں رشتے طے کرنے میں شوہر اور نوکر کی دلی خواہش و کیفیت کم و بیش ایک سی ہوتی ہے۔ نوکری کا انٹرویو باس لیتے ہیں، شوہری کا ساس اور باس کے نخرے اٹھانے کے پیسے ملتے ہیں جبکہ بیگم کے نخرے اٹھانے پر زن مرید ہونے کے طعنے۔ حسب نسب چال چلن کریکٹر سرٹیفیکیٹ، میڈکل فٹنس اور قابلیت و اہلیت کی مکمل جانچ پڑتال بھی دونوں صورتوں میں کی جاتی ہیں۔ یاد رہے یہاں ‘ارینجڈ’ نوکری اور شوہری کی بات ہورہی ہے۔ آ بیل مجھے مار والے کیس میں تو گواہ چست مدعی سست والا معاملہ ہوتا ہے اور پکی پکائی کھیر پیش کردی جاتی ہے۔ یہ تو رہی پہلے کی بات۔ اصل معاملہ تو بعد میں شروع ہوتا ہے۔ باس کہتا ہے تم صرف میرے ہو، میرے ہی رہنا اور بیگم بھی یہی کہتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ دونوں کا آپسی تعلق سوکنوں جیسا ہوتا ہے۔ سوکن سے بدلہ لینا ہو شوہر کو نچایا جاتا ہے، دوسری کو جلانا ہو تو تھوڑا پیار جتایا جاتا ہے، یہاں بھی ہوبہو معاملہ ویسا ہی ہے۔ شاعر کبیرؔ اس سارے معاملے کو اپنے دوہوں میں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

؎  چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیرؔا رو

دو پاٹن کے بیچ، ثابت بچا نہ کو

ایک پاٹ باس ہوا اور دوسرا بیگم۔   دونوں مکمل وقت اور توجہ مانگتے ہیں۔ پیورٹی آف ہارٹ جسکو شاید وفاداری اور لائیلٹی کہا جاسکتا ہے وہ بھی مانگتے ہیں، عمر بھر ساتھ نباہ کرنے کے وعدے، اعادے اسکے سوا۔ اور دونوں پاٹوں کے بیچ پستا ہوا بیچارہ نوکر ہو یا شوہر، صرف باس و بیگم کے نخرے ہی اٹھاتا ہے۔  کسی بھی بات پر موڈ آف ہوا تو غصہ اسی غریب پر اترے گا۔ باس کے باس یا بیگم کی ساس نے کچھ کہہ دیا تو لعنت ملامت اور طعنے بھی اسی کے نصیب میں۔ کارِ منصبی میں رازدارانہ مشورے دینا، باتیں سننا، موقع بموقع تعریفیں کرنا، دل بہلانا شامل ہے۔ نوکر اور شوہر کی صبح اگر ‘آج بہت اچھی لگ رہی ہو’ اور ‘باس بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں’ سے شروع  نہیں ہوتا تو شام تک بھگتتا رہتا ہے۔ صبح بیگم کی سن کر نکلتا ہے، دن بھر باس کی سنتا اور مانتا ہے، شام ڈھلے پھر بیگم کی سنتا اور مانتا ہے۔ یعنی بقول شاعر ‘رات دن یوں گزرتے ہیں، صبح باس، شام میں بیگم کو بھگتتے ہیں’۔ عمر گزر جاتی ہے دونوں کو خوش رکھنے کی دوڑ میں مگر اخیر میں یہی سننے کو ملتا ہے ‘تم نے آج تک کونسا سکھ دیا مجھکو’۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی چھٹی پر ہو تو غریب کی عید ہوجاتی ہے۔

  naukar shohar baigumدونوں کے بیچ تناسب قائم رکھنا ایسے ہی ہے جیسےبیک وقت کانچ کی کئی گیندیں اچھالنا اور اس حالت میں کہ کوئی آپکو گدگدی بھی کررہا ہو اور ایک بھی کانچ کی گیند زمیں پہ گر کر ٹوٹنی نہیں چاہیئے۔ پس ثابت یوا کام دونوں مشکل بھی ہیں اور خطرناک بھی، وہی آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے والی بات۔ اب کوئی مرے کیا نہ کرے، سو ہم جیسے شرفاء ‘بغل میں بیگم منہ میں باس باس’ سے کام چلاتے ہیں۔

3 thoughts on “شوہر کی تے نخرہ کی

Add yours

Leave a Reply to مہتاب عزیز Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: