عشق کا اپینڈکس


 Valentines Day Special

funnyval15

بچپن میں عشق کا تصور نہایت عجیب سا تھا۔ یہ پاگل لوگوں کا کام لگتا تھا، اور ہم سوچتے تھے کہ وہ کونسے عقل سے عاری بیوقوف لوگ ہوتے ہیں جو ان توہمات اور لغویات میں غلطاں رہتے ہیں۔

بقول شخصے، عشق، محبت کی تھرڈ ڈگری ہوتی ہے، سپرلیٹو ڈگری- جیسے کینسر کی تین سٹیجس ہوتی ہیں نا، اس میں سب سے آخری والی کو عشق سمجھیئے۔ عشق میں بالکل ہی ستیاناس نکل جاتا ہے، فہم و دانش رخصت اور کلاہ و دستار سرِ نوکِ مژگانِ معشوق ہوتی ہے۔ یہ اسی کمبخت کے سائیڈ ایفیکٹس ہیں، دیکھیئے نا، کیا بات شروع کرنے لگا تھا اور پھر فلسفیات، اور بقول عاشقہ محترمہ لغویات میں پھنس گیا۔  عشق کا یہی سیاپا ہے، اچھا خاصہ عقلمند بندہ بھی بیٹھے بٹھائے خود کو غالبؔ کے پائے کا شاعر، اقبالؔ کے پائے کا فلسفی اور سقراط کے پائے کا منطقی سمجھنے لگتا ہے۔ میرے قصے میں تو اس خوش فہمی کی وجہ عاشقہ محترمہ کا ادب (لٹریچر اور دوسرے والا بھی) سے بالکل نابلد تھیں، بالکل ایسی نان سینس کو خاطر میں بھی نہیں لاتی تھیں، سو بغیر پڑھے سنے انہوں نے مجھے غالبؔ کا ہم پلہ قرار دیدیا۔ وجہ یہ بتائی کہ نا اسکی سمجھ آتی ہے نہ تمھاری۔

ابھی عمر کچی ہی تھی کہ ہم عشق کے دلدل میں پھنس، یا یوں کہئے کہ پھنسا لیئے گئے۔ وہ اتنی خوبصورت تو نہ تھی، مگر ہمارے یار دوستوں کے وضع کردہ “نبض چلتی ہونی چاہیئے” کے اصول اور اس پہ اسکی ایک دلفریب ادا نے ہمیں اپنی زلفوں کا اسیر کرلیا۔اسکی زلفیں واقعی ایسی تھیں کہ اڑتا جہاز بھی جاپھنسے تو راہِ فرار نہ پائے۔ اتنے گھنے، گھنگھریالے اور تیل میں ایسے لت پت جیسے کسی شیرخوار کا استعمال شدہ ڈائپر(پیمپر کہنے سے کمپنی کی مشہوری ہوجانی تھی اس لیئے نئیں کہا)! تو بات اس دلفریب ادا کی تھی، پورے محلے میں جنسِ مخالف و مختلف کی وہ واحد ہستی تھی جس نے ہمیں، یعنی محلے بھر کے ٹھکرائے، چوٹ کھائے ہوئے عاشقِ نامدار کو اپنا رازداں بنایا۔

یار احباب کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں تھا، وہ ہمیں فقط اپنے کام نکالنے اور “ٹائم پاس” کیلئے لفٹ کرواتی تھی ، ممکن ہے وقتی لگاوٹ ہو جسے ہم نے بڑھا دیا ہو”فقط زیبِ داستاں کے لیئے”۔ خیر، یار دوستوں کا تو کام ہی ٹانگ کھینچنا ہے، کسی دوست کو خوش دیکھ نہیں سکتے، یہ عشق تھا یا کیا، یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں، ضرور بتائے گا۔

سو بات وہیں ہے کہ کمسنی میں ہی ہم عشق کے دامِ شیندن میں پھنسا لیئے گئے اور بقول شاعر، ‘کج انج وی راہواں اوکھیاں سن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی” اور اسی مرن دے شوق میں ہم اس پری وش کے اسیر ہوگئے۔ ہمارے عشقِ عظیم میں بڑا ہاتھ میرؔ مرحوم کا بھی تھا۔ ‘حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا’ ایسی دل سوز اور سبق آموز مثنویاتِ عشق چھوڑ گئے ترکے میں کہ ‘لیئے پھرتے ہیں دل ہتھیلی پہ ، کوئی دُکھانے والا تو ہو’۔ زلفوں کا بیان تو ہوچکا، قامت پہ کیا کہوں، تضمین و بدتمیزی بر شعرِ غالب “تیرے فتنے کو ایک قدِ آدم ، سر و قامت سے بلند دیکھتے ہیں” اب بھی سمجھے نہ ہوں تو یوں سمجھ لیجئے کہ تھی سرو قامت ہی، مگر سرو کو اُگے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ باقی خد و خال بھی ٹھیک ہی تھے، بارش پڑتی تو کبھی اسکے پیر گیلے نہ ہو پاتے، اور اوپر بیان کردہ نبض والے اصول کے حساب سے تو باقاعدہ خوبصورت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی سیانے جو کہہ گئے ‘گدھی پہ دل آئے پری کیا چیز ہے’ غلط تھوڑی ہے۔

خیر، قصہ مختصر نینوں سے نین لڑے، دونوں چھت پہ چڑھے، ہوئی چھپ چھپ کے ملاقاتیں، ڈھیروں راز و نیاز کی باتیں، رنگ و نسل، احساس جدا، سکول جدا، کلاس جدا، اسائنمنٹوں کے چکر میں غلطاں، وہ پاس ہوئی اور تین چار میں لڑھکے ہم! مگر اس نے ہی ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا کہ ہمارے انجینیر بننے کے سپنے کو وہ پورا کریگی، اور اسنے کیا بھی۔  اب بات خواب پورا کرنیکی تھی سو کردیا، جیون ساتھ بتانے کی قسمیں نہ اسنے کھائیں نہ کھانے دیں کہ مناسب وقت پہ دیکھیں گے، اور نصیرؔ ترابی صاحب کی زبان میں “اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں ، وقت ایسا تھا کہ ناز اٹھاتے گزری”۔ ہم ناز اٹھاتے واری جاتے، اور وہ خوش ہوتی۔ سچ مانیں، غالبؔ نے غلط نئیں کہا تھا ‘عشق میں نہیں فرق جینے اور مرنے کا، اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے’

استادوں نے دیوانوں کے دیوان لکھ مارے ہیں محبوباؤں کی بیوفائیوں، کج ادائیوں اور حشر سامانیوں پر۔ اول تو یہ کہ عشق میں گر لطفِ گریہ نہ لیا تو کیا کیا، دوم یہ کہ استادوں کا نقطہء نظر سر آنکھوں پر مگر تھوڑا اساتذہ کرام طبیعتاً پیسیمسٹ واقع ہوئے تھے۔ اب اگر میں انکی اندھی تقلید پہ آؤں تو شاید اک دفتر لکھ ماروں اس حسینہء خیال کی بیوفائیوں پر، مگر چونکہ میں ذرا آپٹمسٹ واقع ہوا ہوں تو اس پورے معاملہ کو تعمیری انداز میں دیکھتا ہوں۔ مثلاً اگر وہ دن کا کچھ حصہ محلے کی ایزی لوڈ والی دکان کے لڑکے سے باتوں میں گزار دیتی تو اس میں حرج کیا تھا، محبت تو مجھی سے کرتی تھی نا اور اگر ایزی لوڈ والے کی کرامات نہ ہوتیں تو اکثر و بیشتر مجھے فون کیونکر کرپاتی یا ہوشربا قسم کے ایس ایم ایس کیسے بھیجتی۔ یہی معاملہ کیبل والے کے ساتھ بھی، صد شکر اسکی شاطر طبیعت کا کہ اس بھولے بھالے سے دو پیار کے میٹھے بول بول کر کتنا ہی عرصہ مفت و مفت کیبل کے مزے لوٹے، اپنی من پسند فلمیں جو بارہا کیبل پر دیکھیں وہ تو قوتِ شمار سے ہی باہر ہیں۔ اب معاملہ رہا کلاس فیلوز سے راہ و رسم کا تو اول اخلاقاً بھی ان سے اچھی دوستی رکھنا فرض بنتا تھا، دوم پڑھائی اسقدر خشک کہ کچھ رنگینی نہ ہو تو پڑھنا محال، سوم  پڑھائی اتنی مشکل کہ بغیر کسی لائق فائق ککھ پلے نہ پڑتا، اور اگر خدانخواستہ فیل ہوجاتی تو ہمارا خواب کون پورا کرتاَ؟ بولئیے نا۔ اب یاروں کا اعتراض رہا کہ اچھا اگر یہ سب کچھ نیک نیتی پہ مبنی تھا تو پردہ کیوں، تو صاحب آپ خود بتایئے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک طرف تو کوئی انسان میرا خواب پورا کرنیکے لیئےاتنا سب کرے اور میں بجائے سراہنے کے الٹا اس سے وضاحتیں طلب کرتا پھروں۔ سو ‘ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا’۔ اور ویسے بھی آجکل کی لڑکیاں ‘میں کوئی پینٹگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں، وہی جو من کا میت ہو اسی کے پریم میں رہوں’ ٹائپ کی ہیں۔

بہرحال ہم بھی یار دوستوں کی باتوں میں آگئے اور ویلنٹائن کو غنیمت جان، ہمت کرکے پوچھ ہی بیٹھے ‘کیوں گوری ہم کون ہوئے تمھارے’ اور جواباً فرازؔ صاحب کی نظم والا مکالمہ ہوا’میں عشق کا اسیر تھا، وہ عشق کو قفس کہے، کہ عمر بھر کے ساتھ کو، بدتر از ہوس کہے’ اور مکالمہ اختتام بھی یونہی ہوا۔ اور ‘اک پل میں وہاں سے اٹھے، بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے’۔

بعد ترکِ مراسم ہمیں پتا چلا کہ یہ جو عشق ہے یہ اصل میں اپینڈکس ہے۔ جب تک نہ چھڑے اسکا احساس تک نہیں ہوتا، مگر اک بار جو ضد پہ آوے تو پھر اس سے جان چھڑانا مشکل، اور جان چھٹ جائے تب الگ سی ایک درد۔ ہمارے قصے میں تو ابا حکیم طبیعت واقع ہوئے تھے، اپینڈکس کی تشخیص کے چند ماہ کے اندر اندر ایسا کامیاب ‘ارینجڈ’ آپریشن کیا کہ مکمل افاقہ ہوگیا، اپینڈکس تو کیا شمار پھیپھڑے گردے کلیجی سب نکال باہر کیا۔ بارے اب جنگل کا بادشاہ سرکس کا شیر ہے اور دن رات بھنیس کے آگے بین بجاتا پھرتا ہے،اور ‘اب اسکی یاد رات دن، نہیں مگر کبھی کبھی’۔

16 thoughts on “عشق کا اپینڈکس

Add yours

  1. بہت خوب۔۔ آپ کی داستانِ دراز پڑھ کے بہت سوں کی عقل ٹھکانے آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن آپ کو تو پتا ہے دوسروں کے تجربوں سے سبق سیکھنا تو سیکھا ہی نہیں ہے۔۔۔

  2. یار نہ کر یہ پڑھ کر اپنے زخم ہرے ہو گئے !!!
    ہم نے بھی ہر جانے والی کو یہ ہی کہا “تجھے عشق ہو خدا کرے”
    اور خدا نے ایسا نہ کیا!!!

  3. بے حد عمدہ لکھا جناب ۔ سب سے زیادہ آپ کا لکھنے کا انداز بہہہہہہت ہی دلکش ہے واہ بہت خوب ۔۔وہ پردہ والے شعر کے استمعال پر تو ہنسی نکل گئی ۔باقی سب بھی بہت خوب لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء آپ کی دوسری تحاریر بھی بڑھونگی

  4. بہت مزے کا لکھا یار، میری نظر سے نی گذری تھی یہ پوسٹ۔ چودا فری وری پہ ایک دم فٹ
    اور بعد از مکھن اب اصلی تبصرہ
    مرن دا شوق یا مران دا؟
    اور تو تو کہہ را تھا شادی کو دو مہینے ھوئے فیر یہ ڈائپروں والا تجربہ کیسے ھوا؟ لانڈری میں ڈائپر واشنے کا کام تو نی کرتا؟
    اور ایک سکنٹ میں بھینس کا لقب دے دیا بھابی کو؟ ویری بیڈ
    سہی سہی بتا کتنی کٹ پڑی تھی اس پوسٹ کے بعد؟
    نمبر تو نکلوا ھی لیا ھونا تیرے سے تیری مشوق کا؟ اور اسکی ٹھیک ٹھاک تسلی بھی کرا دی ھونی، نئیں؟

    1. واہ کیا مردم شناس نگاہ پائی ہے جناب نے۔ نئیں رونا ہی یہ ہے کہ معشوق تھی کوئی نی نا۔ بس ٹرک کی بتیاں تھی اور ٹھرک کی سڑک :ڈ
      اور صد شکر بھابھی یہ بلاگ نہیں پڑھتیں۔
      باقی ڈائیپر کا تجربہ یار دوستوں سے سنا۔

Leave a Reply to Abrar Qureshi Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: