مولوی صاحب


مولوی

آپکا تعلق مولویوں کے تیسرے درجے سے ہے، مولویوں کے درجات اور انکی خصوصیات بتاتا چلوں، پہلے درجے میں وہ   مولوی صاحبان و حضرات ہوتے ہیں جنکی ہم بقلم خود بہت عزت و تکریم کرتے ہیں جو عقیدے کے پکے، قول و فعل کے سچے اور عمل کے کھرے لوگ ہوتے ہیں۔ دوسرے درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو اپنے پلے سے ہر گلی محلے میں باافراط اپنے ‘ڈیڑھ انچ’ کی مسجد بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں اور انکی زبان عموماً کسی معروف سیاسی و سماجی شحصیت کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہے، عقیدہ فلیکس ایبل ہوتا ہے  اور اس میں حسبِ ضرورت و ذائقہ ترمیم و تکفیم فرماتے رہتے ہیں۔ تیسرے درجے میں وہ حضرات آتے ہیں جو پروفیشنل مولوی تو نہیں ہوتے مگر ویسے عالم بنے پھرتے ہیں اور موقع بموقع فلاحِ انسانی کے جذبے سے سرشار فتوی دیتے رہتے ہیں، انکو اکثر بے تکلف محافل میں “مولوی” بھی کہا جاتا ہے، انکی نمایاں ترین خصوصیت ؎  دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت

روزے رکھتے ہیں تو نماز میں ڈنڈی مارجاتے ہیں ، محرم میں نوحہ خوانِ حسین بنے مجالسِ عزا کی زینت ہوتے ہیں، ربیع الاول میں عید میلاد کے جلوسوں کے روحِ رواں ہوتے ہیں اور رمضان میں باحسابِ افطار و استطاعت کبھی 8 اور کابھی 20 تراویح پڑھتے (نصیحت) کرتے نظر آتے ہیں۔ خیر یہ اللہ کا اور انکا آپس کا معاملہ ہے، وہ اللہ پر بھی یقینِ کامل رکھتے ہیں اور پیر بابوں کی چاکری بھی نہیں چھوڑتے۔ جیسے وہ اک لطیفہ بھی ہے ایک سکھ اور ایک مسلمان کی بحث ہوگئی کہ کسکا مذہب سچا ہے، اور یہ ٹھہری کہ دونوں شہر کے بڑے پل سے چھلانگ لگایں گے، جو بچ گیا اسکا مذہب سچا، پہلے سکھ کی باری تھی وہ بولا “وائے گرو جی دا خالصا” اور کود گیا، نیچے دریا میں گر کر تیرتے ہوئے کنارے کی جانب بڑھنے لگا، یہ سوچ کر مسلمان تھوڑا ہچکچایا، بہرصورت، پل کے زینے پر چڑھ کر بآوازِ بلند بولا اور چھلانگ لگادی “یااللہ مدد کرییں، گرو جی ذرا تسی وی دھیان مارنا” ۔

پیشے کے اعتبار سے آپ ایک گورنمنٹ آفس میں بطور سٹینو خدمتِ خلق کررہے ہیں، جوانی نظر بچا کر کبھی کی رخصت ہوچکی، حاسدین نے اڑائی ہے کہ حضرت نے عین جوانی میں عشقِ ناکام فرمایا اور اسکے بعد سے اللہ لوک ہوگئے، بے تکلف دوست البتہ انہیں پہلے سے ہی اللہ میاں کی گائے کہا کرتے تھے۔ آپ باوجود چاہنے کے پرفیشنل مولوی نہ بن سکے۔ اب البتہ نجی محافل میں اسلام میں اپنے فائدے کی بے لاگ گفتگو کرتے ہیں، چند ایک احادیث بھی یاد کررکھی ہیں، عقیدت اور دھن کے پکے ہیں، ویسے تو کیبل کے سخت خلاف ہیں، مگر ہزار جان سے مادھوری پر فدا ہیں۔

آپکے چہرے پر متانت بھری طفلانہ مسکراہٹ، زنانہ ہچکچاہٹ، ہلکی ہلکی مونچھیں اور داڑھی ہیں، دائیں انکھ کے نچلے اور گال کے اوپری حصے میں ایک عدد زخم تھا جو غالباً بچپن میں کہیں گرنے سے لگا ہوگا جسکو کھرچ کھرچ کر آپ نے آدھے منہ تک پھیلا دیا ہے۔ بال عجب قسم کے گھنگریالے ہیں جیسے جوتے پالش کرنے والے برش کے دندانے ہوں، دانت بجز صد کوشش پیلم پچوڑ ہی ہیں، چوڑی ناسیں اور بھدے بھدے ہاتھ۔

نمایاں عادات میں یہ کہ آپ شرمناک حد تک کمینے اور خطرناک حد تک کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ وحدت المسلمین تو درکنار، آپ اسقدر مذہبی آزادی کے قائل ہیں کہ بابا گرونانک، رام سیتا وغیرہ سے بھی عقیدتِ خصوصی رکھتے ہیں۔ بارے انکی مذہب پرستی ایک پھبتی یاد آگئی، ایک بار غالباً انہی جیسا کوئی خود ساختہ مولوی حجازِ مقدس گیا اور وہاں جاکر بیمار پڑ گیا، بعد دوا بھی جب افاقہ نہ ہوا تو یہاں رشتہ داروں کو کال کرکے کہا ” ذرا داتا صاحب جا کے دیگ دینا میری طبیعت نئیں سیٹ ہوریی”

مونا لیزا کی تصویر کے بعد اگر کوئی منظر اتنا ہی دلفریب اور دلکش ہے تو وہ مولوی صاحب کو چائے پیتا دیکھنا ہے۔ بے وجہ ہی آپکو امتیاز صاحب کا “چچا چھکن” یاد آجائے گا۔  پہلے چائے کے کپ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں، پھر گھورتے ہیں اور کپ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھ کر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہیں گویا کہہ رہے ہوں “اب تیرا کیا ہوگا کالیا”۔ پھر آہستہ سے گھونٹ لگاتے اور لگاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک گھونٹ کم از کم دو سے تین منٹ کا ہوتا ہے، جو علاوہ مسکراہٹ کے، موسیقیت سے بھی لبریز ہوتا ہے۔

شڑ شڑ شڑڑڑ شڑشڑڑڑ شڑڑشڑ شڑڑڑڑڑڑڑڑ شڑشڑشڑڑ شڑاااااپ اور جہاں انکا ردھم ٹوٹا، انکی زوجہ کا شروع ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کو اکٹھے چائے پیتے دیکھنے سے زیادہ سننے کا مزہ آتا ہے۔ مولوی صاحب شروع ہوئے، گویا میاں تان سین نے راگ ایمن چھیڑا ہو اور جہاں انکی تان ٹوٹی، سر کومل سے ات کومل ہوا،  وہیں ملکہ پکھراج نے مخمل میں راگ بھیرویں کا ٹاٹ سا پیوند لگایا۔ کسی سر کو تال کی فکر نہیں، کومل ات کومل سروں نے عجب ایک رش انگیز موسیقیت کو جنم دے دیا ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کے ساتھ سب سے بڑی ٹریجڈی انکی شادی تھی، یہی واقعہ انکی اہلیہ بھی انہی الفاظ میں اپنے لئے سناتی ہیں کہ ایک غریب اوپر سے بدتمیز۔ مولوی صاحب شکل کی طرح عقل کے معاملے میں بھی خود اپنے آپ پر ہی گئے ہیں۔ کہنے کو تو خود کو افلاطون کہتے ہیں، اور بات اس انداز سے کرتے ہیں کہ جیسے سقراط انہی سے سیکھا کرتا تھا،  مگر بات کریں تو چوہدری شجاعت صاحب المعروف مٹی پاؤ کو مات کردیں۔ بارے انکی عقل کہ ایک واقعہ گوش گزار کروں، ایک بار ہانپتے کانپتے آئے اور بے عید ہی تین چار بار گلے لگ کر مبارک بادیں دینے لگے، میں نے وجہ پوچھی تو بولےچھوٹی ہمشیرہ کے یہاں بچے کی پیدائش ہوئی ہے، ابھی یہ نہیں پتہ چلا کہ میں ماموں بنا ہوں یا خالہ (یعنی بھانجا ہوا ہے یا بھانجی)!

کہتے ہیں پرانے وقتوں میں بلادِ عرب میں کوئی بوجھ بجھکڑ ہوا کرتا تھا جو بہت عقلمند، دانا اور معاملہ فہم مشہور تھا۔ دور دراز سے لوگ اپنے معاملات میں اسکی رائے لینے آتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ ایک شخص کسی طرح کھجور کے درخت پہ چڑھ گیا اور اتر نہ سکا۔ چھلانگ لگانے کی اسکی ہمت نہ ہوئی تو معاملہ بوجھ بجھکڑ کے حضور پیش کیا گیا۔ بوجھ بجھکڑ نے کہا ایک مضبوط رسی لیکر اسکو باندھو اور اپنی طرف کھنیچو۔ لوگوں نے بعینہ ویسی کیا اور نتیجتاً وہ شخص نیچے گر کر ہلاک ہوگیا، لوگوں نے لعنت ملامت کی تو وہ بولا، میرا طریق درست تھا، یہ تو اسکی لکھی ایسے تھی ورنہ ابھی چند روز قبل میں نے ایک شخص کو ایسے ہی دریا میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔

یہ تو خیر مولوی صاحب کی پرانی عادت ہے کہ بنا بنایا کام بگاڑ کر “جو اللہ کی مرضی” کہہ کر اللہ پہ ڈال دیتے ہیں۔ بات درست ہے کہ ہر خوشی اور غم منجانب اللہ ہوتی ہے مگر یہ ہرگز مناسب نہیں کہ خود خراب کرکے یوں کہہ دیا جائے۔

مولوی صاحب منہ کے برخلاف دل کے صاف آدمی ہیں، بالکل ویسے جیسے ایرئیل کپڑوں کو بے داغ کردیتا ہے۔ صاف گو، ڈرامہ سے بھرپور ہماری فلمی اور ڈرامی ہیرونوں کی طرح۔ مولوی صاحب اکثر و بیشتر ایسی بات کرجاتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ ایک روز ماں باپ کے بارے میں بات ہورہی تھی میں نے عرض کیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے تو باپ کے قدموں تلے کیا ہوتا ہے، آپ جناب جھٹ بولے “باٹا کا موٹے سول والا سینڈل”!!

حضرت کو کتابیں پڑھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے، ایک بار لائبریری میں داخل ہوئے اور میز پر موٹی سی کتاب پٹخ کر بولے، اتنے زیادہ کردار اور کہانی کوئی بھی نہیں۔ لائبریرین قدرے اطمینان سے بولا “اچھا تو وہ آپ ہیں جو ٹیلیفون ڈائریکٹری لے گئے تھے!” مطالعہ کی لت لگنے کے بعد حضرت نے اردو ادب میں بھی طبع آزمائی کی۔ آپکے دور پار کے اعز و اقارب میں سے کوئی ضلع باغ سے تعلق رکھتا تھا، وہ لکھنوی، امروہوی، دہلوی اور جالندھری کی دیکھا دیکھی اپنے نام کے ساتھ باغیؔ لگانا شروع کردیا اور مذہبی انتشار پسندی کی پاداش میں دھر لئے گئے۔ وہ لتر پولا کرتے رہے، پوچھتے رپے، اب چونکہ حضرت کو کچھ معلوم نہیں تھا لہٰذا وہ چپ رہے۔ اس واقعہ کے بعد بہرحال یہ مصرعہ ہر عام و خاص کو بہت لہک لہک کر سناتے تھے

؎ اسے میری چپ نے رلادیا، جسے گفتگو میں کمال تھا

حضرت کا مشہور مقولہ ” شادی شدہ بندہ مسکراتا ہوا بالکل ایسے لگتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی وگ کی حجامت بنوا رہا ہو” قصہ گوئی اور شاعری کا بھی بے حد شوق رہا ہے اور مختلف ادوار میں ان اصنافِ سخن کو بھی جلا بخشی ہے جو نام نہاد ادب کے ٹھیکیداروں نے ہاتھ جوڑ پیر بکڑ لاکھ منت سماجت کے بعد منظرِ عام سے پس منظرِ خاص کو منتقل کروائی۔ ذیل میں پہلے مولوی صاحب کی ایک نظم پیش کررہا ہوں جسکا عنوان ‘مولوی صاحب’ ہی ہے۔

مولویوں   کے     بھی     جذبات    ہوا    کرتے     ہیں

اور     یہی    موجبِ     واردات    ہوا    کرتے    ہیں

نہ      بڑھانا    فر ینکنس    اک     حد    سے     زیادہ

بے   احطیاتی   میں   اکثر   حادثات   ہوا    کرتے  ہیں

ہر   کوئی  منسٹر  کو  فون  لگائے  ضروری  تو  نہیں

مولویوں  کے  یوں  ہی  بڑے  لمبے ہاتھ  ہوا کرتے ہیں

یہ بھی  سیاست  ہے  کہ  منبر  پہ  خموش  رہتے  ہیں

اور  جو  بولتے  ہیں ،  سپردِ  حوالات  ہوا  کرتے ہیں

وزارتِ  بہبودِ  آبادی  سے  نجانے کیا  بیر  ہے  ان کو

ہر مولوی کے کم از کم درجن بچہ جات ہوا کرتے ہیں

یہ  ہی  نہیں  کہ  نکاح  و جمعہ  پڑھا سکتے  ہیں فقط

مولویوں کے اور  بھی  کئی  کمالات  ہوا  کرتے  ہیں

زندگی  بے   رنگ   تو   بالکل   بھی   نہیں   ان   کی

پوشیدہ  سے  اکھ  مٹکے  کے  معاملات  ہوا کرتے ہیں

 قصہ گوئی کا شوق حضرت کو ضیاء محی الدین کے انداز سے ہوا اور سسپنس شاید سید نور صاحب سے انسپریشن کا نتیجہ تھا۔ خیر قصہ مختصر، ایک بار قصہ سناتے ہوئے کلائمکس سین پر تھے “۔۔۔۔ اور امجد سب گاؤں والوں سے نظر بچا کر، رانو کو رات کے اندھیرے میں بھگا لے گیا، شہر جانیوالی بس میں بیٹھے، ابھی بس چلنے کو تھی کہ ایک زنانہ آواز گونجی “ٹھہرو، مجھے کپڑے تو اتار لینے دو” اور یہ کہہ کر شیطانی ہنسی ہنسنے لگے۔ احباب نے لعنت ملامت کی تو مسکرا  کر بولے “پھر دھوبن نے سر سے کپڑوں کا گٹھڑ اتارا اور بس چل پڑی”۔

مولوی صاحب لطیفوں کی صنعت کیلئے نہایت مفید ثابت ہوئے ہیں، بلکہ صاحبِ لطیفہ ہیں۔ لوگ انکے متعلق عام سادہ سی بات کرتے ہیں اور وہ لطیفہ بن جاتی ہے۔ اب تو ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ ایک کتاب بنام “مولوی کے سپر نٹ لطیفے” کے نام سے شائع کرکے ثوابِ دارین اور رقمِ ڈھیرین حاصل کریں۔ اک روز بے تکلف احباب کی محفل میں آپ بے قاعدگی سے ہنسے جارہے تھے کہ کسی نے ٹہوکا دیا ‘مولوی صاحب آپکو ہنستا دیکھکر یقین آجاتا ہے کہ انسان پہلے بندر تھا’ جس پہ مولوی صاحب نے ازراہِ ضرورت غصے کا اظہار فرمایا تو دوسرے صاحب بولے، ارے سرکار غصہ نہ کیا کیجئے ورنہ یوں لگتا ہے کہ انسان آج بھی بندر ہے۔

مزید نمایاں ترین عادات میں حفظ، ماتقدم کی عادت ایسی ہے کہ جسکے لئیے باقاعدہ ایک الگ دفتر درکار ہے۔ انکی اس عادت کی وجہ سے نہ صرف یہ خود بلکہ اردگرد کے لوگ بھی تنگ ہیں۔ ایک سال اگر اپریل میں سردی پڑی تو اگلے سال بھلے کڑاکے کی دھوپ ہو، اپریل میں سویٹر پہن کر ہی گھومیں گے، بے شک گرمی سے ہی بیمار ہوجائیں۔ وہ کیلے سے پھسلنے والا لطیفہ کسی نے غلط سرداروں پہ بنایا ہے، حضرت تو اسکا عملی نمونہ ہیں۔ ذرا کھانس لیں یا چھینک آجائے تو پندرہ بیس ٹوٹکے تو آن کی آن میں آزما لیتے ہیں، فوراً سویٹر نکالا، گرم ٹوپی پہنی، جرابیں پہنیں، طرح طرح کے قہوے پی ڈالے، چائے میں شہد ڈال کر استعمال کیا، اور اتنا سب اکٹھا کرنے کے باعث شدتِ احتیاط سے بیمار پڑگئے۔ جب میٹرک میں تھے تو ازراہِ احتیاط بی اے کا کورس بھی خرید کر رکھ لیا، وہ تو شومئی قسمت، میٹرک میں ہی ہیٹرک کرکے بالآخر   پڑھائی کو خیر آباد کہہ دیا اور گزشتہ کئی برس سے یونہی کاروبارِ ہستی چلا رہے ہیں اللہ ان کو زندگی صحت دے اور ہمیں مزید انکا فیضان نصیب کرے۔

23 thoughts on “مولوی صاحب

Add yours

  1. جناب ابرار قریشی صاحب، بلاگ شروع کرنے پر مبارکباد قبول کریں۔ جن حضرات سے شہ پا کر آپ نے بلاگنگ شروع کی انہیں ہم استاد جی کہتے ہیں۔ آپ کا طرز تحریر لاجواب اور متاثر کن ہے۔ لکھتے رہیئے کہ پریشانیوں کے اس دور میں کسی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سجا دینا بھی بہت اچھا کام ہے۔ ایک نام آپ بھول گئے علی حسان کا ، ان کا بلاگ بھی دیکھ لیں مزا آئے گا آپ کو۔

    1. عنایت، کرم شکریہ مہربانی 🙂
      یہ سن 2006 میں لکھی تھی ایک دو اور بھی ہیں تب کی وہ بھی عنقریب ٹائپ کرکے شیئر کرنگا۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ

  2. بہت اعلا بھئی۔ مجھے لگتا ہے کہ اردو بلاگرز کی صورت میں اردو ادب کو بڑے پائے کے مزاح لکھنے والے میسر آرہے ہیں (بڑے پائے کو بڑے کے پائے نہ سمجھا جائے)۔

  3. بہت خوب جناب ۔ میں اکثر اتنی لمبی تحریریں چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن اس تحریر نے مجھے پکڑ ہی لیا۔ اور کہتے ہیں اچھی تحریر وہی ہوتی ہے جو قاری کو پکڑ لیے۔ ماشاءاللہ

  4. بہت خوب ۔بلاگ لکھتے وقت جو کوڈ تحریر کے شروع میں لگاتے ہیں۔اگر یہ کوڈ فونٹ سائز کم کرکے کمنٹس پر لگائیں تو کمنٹس بھی نستعلیق فونٹ میں نظر آئیں گے،جیسے میرئے بلاگ پر۔یا دوسرے ورڈ پریسیوں کے بلاگ پر۔

  5. ماشاء اللہ، سبحان اللہ، جزاک اللہ، تبارک اللہ،

    مولوی دا ہاضمہ بہت دن ٹھیک رہا ہوئے گا۔

    بھائی صاحب اگر آپ بچپن میں ایسی تحریریں لکھتے تھے (یعنی 2006) میں ۔
    تو اب بڑے ہو کر کیا گل کھلائیں گے۔ باغ بہاراں ہونا چاہئے پھر تو

    اللہ خوش رکھے عمدہ لکھا ہے سواد آ گیا۔

  6. آگیا ایں تے چھا گیا ایں ٹھاہ کر کے۔
    عمدہ لکھا ہے۔ ویسے واقعی اگر یہ 2006 کی ہے تو اب تو آپ ادیب الادباء ہو گئے ہوں گے۔ ط:۔

Leave a Reply to Abrar Qureshi Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: