گونگلواں دی مٹی


First published on 20th November 2012

 دراصل عزت ماب صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کے دورہ و خطاب خیبر پختونخواہ سے متعلق ہے۔ پوسٹ کے عنوان کی وضاحت کرتا چلوں یہ ایک پنجابی محاورہ ہے جسے عرفِ عام میں کسی کو ٹالنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جسے فرازؔ نے یوں بیان کیا

             اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے   ؎

اب دریا میں تلاطم ہے نہ سکوں ہے یوں ہے

خیر، ٹال مٹول میں تو الحمداللہ ہماری موجودہ حکومت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ آج بہت سے تجزیہ نگار، جمہوریت کےٹھیکیدار اور سیاسی لیڈران و لوٹاگان صدر صاحب کے”جراتمندانہ” خطاب کو پاکستان اور جمہوریت کی تاریخ میں ایک اہم اور روشن باب سے عبارت کررہے ہیں، جبکہ میرا اور میرے جیسے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کی رائے اس امر میں مختلف ہے۔
کہتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں کسی کے گھر کی بالائی منزل کو آگ لگ گئی، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ صاحبِ مکان بالائی منزل کی بجائے نیچے والی منزل پہ ہی پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے پھینک رہے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ بھائی آگ اوپر لگی ہے اور پانی تم نچلی منزل پہ ضائع کررہو۔ تو صاحبِ مکان بڑی دانشمندی سے بولے ‘بھائی اول تو یہ کہ یہاں سے جتنی بھی کوشش کرلوں اس منزل تک پانی نہیں پھینک سکتا، دوم یہ کہ اگر اوپر جا کر بجھانے کی کوشش کروں تو احتمال ہے کہ کہیں میں بھی آگ کی لپیٹ میں نہ آجاؤں، اور سوم یہ کہ میری اوپر والی منزل میں ایسا کچھ قیمتی سامان بھی نہیں کہ جل جائے تو پھر نہ بن سکے، بلکہ اگر یہ جلتا ہے تو اسکے بدل مجھے لوگ ازراہِ ہمدردی جو امداد فراہم کریں گے، اسکی مدد سے پہلے سے بہترسامان بناؤں گا’۔ سوال کرنیوالے نے پھر سوال کیا، اگر ایسا سے تو آرام سے جاکر گھر میں بیٹھ رہو، کیوں ناحق اپنی جان ہلکان کرتے ہو، اس پہ صاحبِ مکان بولا ‘وہ اس لئے کہ کل میں لوگوں کے سامنے اپنا دکھڑا رو سکوں کہ “دیکھو بھائیو میں نے اپنے تئیں تو بہت کوشش کی آگ بجھانے کی مگر وہ نہ بجھ سکی۔” اب ذرا زرداری صاحب کا حال ملاحظہ ہو۔ جب خیبر پختونخواہ میں سیلاب آیا، زرداری صاحب کراچی تشریف لے گئے، جب دہشتگردی ہوئی تو کبھی امریکہ کبھی دبئی اورایسے ہی ہر موقع پر کہیں نہ کہیں ضروری کام سے چلتے بنے۔ ملک میں کہیں آتشبازی بھی ہوتی تو صدر صاحب بمعہ عیال کراچی تشریف لیجاتے۔ اور ؔآج جب کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے تو صدر صاحب بجائے وہاؐں جاکر کوئی تسلی تشفی فرماتے، گونگلوؤں کی مٹی اتارنے خیبر پختونخواہ آگئے۔
اب یہ تو بات ہوگئی صدر کے جانے کی۔ وہاں جا کے خطاب جو کیا مجھے تواسکی سمجھ نہیں پڑی، جیسے وہ محاورہ ہے کہ “گونگے دی رمز نوں گونگا ہی جانے” (یعنی بے زبان کی بات بے زبان ہی سمجھ سکتا ہے) تو عین ممکن ہے کہ سیاسی طور پہ واعی زرداری صاحب نے چھکا مارا ہو جسے باقی سیاستدان ہی سمجھ سکتے ہوں۔ ایک واقعہ اس مد میں عرض کرنا چاہوں گا، اکثر و بیشترجمہوریت کے ذکر پہ ازراہِ تفنن سنایا جاتا ہے۔ ایک بار ایک شخص ساتویں منزل سے گرا، سر میں چوٹیں آئیں، وہ جانبر نہ ہوسکا اور مرگیا۔ سارے محلے میں ہائے توبہ مچ گئی، ایک سیانی بڑھیا نے جو لاش دیکھی تو قدرے اطمینان سے بولی، ارے شکر کرو آنکھ بچ گئی ہے۔ تو زرداری صاحب کے خطاب میں جو “جمہوریت” کا لفظ بار بار عود آتا ہے وہ دراصل یہی آنکھ ہے جو بدقسمتی سے بچ گئی ہے، کہ کرپشن کا رونا رونے والو، ملکی تنزلی اور بدحالی کا بین کرنیوالو، امن و امان کی صورتحال پہ پیچ و تاب کھانے والے نادانو، ذرا غور تو کرو، جمہوریت قائم ہے، اور خودی نہیں قائم بلکہ میری انتھک محنت اور کوششوں کے سبب قائم ہے۔ اور پھر ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردیتے ہیں کہ میری ہرگز یہ منشاء نہ تھی، بلکہ یہ تو بآمرِ ربی ہے، نہ بے نظیر رخصت ہوتیں، نہ مجھے موقع ملتا۔
اور جو بار بار بی بی شہید کا بدلہ “جمہوریت” کو مضبوط کرکے لیا۔ اب یہ تو کوئی طفلِ مکتب بھی بتا سکتا ہے کہ گارڈ آف آرنر کس کو دیا گیا اور بدلہ کس سے لیاجارہا ہے۔ صدر صاحب کا تقریباً مکمل خطاب اسرار و رموزِ جمہوریت کے گرد گھومتا ہے۔ اور اسی جمہوریت کا اعجاز ہے کے پورا پاکستان مر رہا ہے مگر بھٹو آج بھی زندہ و جاوید ہے اور سب لٹنے کے بعد بھی صد شکر کہ جمہوریت باقی ہے۔ ضیاء الحق نے شاید بھٹوکو پھانسی لگا کر ان سے اتنی زیادتی نہیں کی جتنی زرداری صاحب نے انکا نام لے لے کر کی ہے۔ اقبؔال کے اس شعر کے صحیح مفہوم اور اسکی عملی جوجیح کو اگر کوئی پہنچا ہے تو وہ ہمارے ہردلعزیز صدر صاحب ہیں:

 جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں     ؎

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

تیسری بات جو غور طلب ہے وہ دیگر امور جن کو صدر صاحب دورانِ خطاب چھوتے گئے، وہ مخصوص سوچ کا ذکر ہے ، جو بقول زرداری صاحب بینظیر کی قاتل ہے، جبکہ چار سال پہلے تک تو محترمہ کے قاتل مشرف اور ق لیگ والے تھے، جو اب زرداری صاحب کو اپنی کرسی کی طرح عزیز ہیں۔ یا اس وقت زرداری صاحب غلط بیانی کررہے تھے یا اب، واللہ اعلم

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: