مایا


“ارے وہ دیکھو مور اپنے پر پھیلائے ناچ رہا ہے، کچھ بہت خاص ہے یہاں”

میں اپنے دھیان بیٹھا  سوچوں میں گم تھا کہ ایک خوشگوار اور مانوس آواز نے  مجھے چونکا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں نے پہلے آواز کی طرف دیکھا، بہت مانوس اور شناسا چہرہ تھا، پھر میں نے مور کی جانب دیکھا جو پر پھیلائے ناچ رہا تھا، واقعی بہت خاص نظارہ تھا، میں اس منظر میں کھو سا گیا، وہ منظر مجھے بہت سال پیچھے لے گیا، جب واپس وقت موجود میں آیا تو وہ آواز اور وہ چہرہ جا چکا تھا، ایسا دوسری بار ہوا میرے ساتھ کہ میں مور ناچ دیکھنے میں اتنا محو ہوا کہ اس میں شناسا چہرہ کھودیا۔

ایک دھندلا سا چہرہ نظروں کے سامنے منڈلایا، مسکراتا ہوا۔ اسکا خیال آتے ہی ہمیشہ مجھے محسن نقوی صاحب کی نظم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے، جیسے محسن صاحب نے اسی کیلئے کہا ہو:

   وہ  لڑکی  بھی ایک  عجیب  پہیلی  تھی  ؎

       پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی

وہ واقعی عجیب تھی۔ ان بہت چند لڑکیوں میں سے ایک تھی جنکی دانش، اور فہم و فراست انکے حسن پہ حاوی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ اسکے ساتھ بھی تھا۔ وہ بہت سادہ رہتی مگر جاذبِ نظر لگتی تھی۔ اس میں بہت سے کمال تھے۔ مثلآ خاموش رہ کر بھی بات کہہ جانا، بظاہر سادہ سی رہ کر بھی خاص اور جدا نظر آنا، وہ ہمیشہ یہی تاثر دیتی جیسے وہ اپنی رائے قربان کرکے آپکی مان رہی ہے مگر یہ اسکا ہنر تھا کہ وہ اپنی بات بغیر کہے ایسے منوا لیتی کے خود سامنے والے کو بھی پتہ نہ چلتا۔ بظاہر محکوم بن کے رہتی مگر در پردہ حکومت کرتی۔ وہ ایسے دل موہ لینے والے انداز میں ہاں میں ہاں ملاتی کے نثار ہوجانے کو جی چاہتا۔ میں اتنے برس اسکے نہایت قریب رہ کر بھی اسے جان نہیں پایا۔ وہ بحث نہیں کرتی تھی۔ یہی اسکا سب سے بڑا کمال تھا۔ جیسے کہا ویسے مان لیا، ہاں دھیرے دھیرے ایسے اس معاملے کے بارے آپکی رائے بدلتی کہ فقط اسکی رائے باقی رہتی، یہ صبر طلب کام ہے، اور صبر و اطمینان کی تو جیسے اسکے اندر ندیاں بہتی تھیں۔

یا شاید کچھ بھی ایسا نہیں تھا جیسے میں سوچتا ہوں۔ اسکا میرا رشتہ نہایت عجیب سا تھا۔ وہ دید کا، وصال کا رشتہ نہیں تھا، وہ الفاظ کا، سماعت کا رشتہ تھا۔ وہ کنگ میکر تھی۔ اسنے نہ چاہتے ہوئے مجھےشاعر بنا دیا۔ میں تو خام تھا، اسی نے مجھ میں یہ ہنر ڈھونڈا، تراشا اور پھر اسکا کریڈٹ بھی میری ہی جھولی میں ڈال کہ چل دی۔ یا شاید اسے یہ الہام ہوگیا تھا کہ اسکے چلے جانے کے بعد یہی اظہار میرے لئے ناسٹیلجیا ہوگا، میرا ہمراز، میرا چارہ گر، میرا مرہم۔ اسکی ہر چیز کی طرح اسکا چاہنا، اسکا اظہار اسکا کچھ سکھانے کا طریقہ بھی عجیب تھا۔ وہ جب بہت خوش ہوتی تو خاموش ہوجاتی، اور جب بیحد خفا ہوتی تب بھی یہی کرتی۔ اس میں ویسے تو خود پسندی نام تک کو نہ تھی مگراکثر کہتی؛ یہ مت سمجھنا یہ سب تمھارا کمال ہے، جینئس کانٹیجیس ہوتی ہے، آگے تم سمجھدار ہو۔ جب بھی میری کسی کاوش کو سراہنا ہوتا تو کہتی،اچھی ہے، مگر تم اس سے بہتر کی کوشش جاری رکھو۔  وہ غیر محسوس طریقے سے ماحول پہ چھائی رہتی، مگر اس بات کا احساس کبھی اسکی موجودگی میں نہ ہوتا، وہ جب نہ ہوتی تو ایک کمی، ایک تشنگی سی ہوتی۔ اس میں یہ کمال تھا کہ وہ ہر جگہ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیتی اور اتنی پرفیکٹلی فٹ ہوجاتی کہ اسکا بدل ملنا ناممکن لگتا۔ میری زندگی میں بھی، بظاہر ایک دوست کی حیثیت سے تھی، مگر میری زندگی کے پزل کا مسنگ پیس بن گئی۔ اسکے ہونے سے میں نے خود کو اتنا مکمل نہیں سمجھا جتنا اسکے نہ ہونے سے خود کونامکمل محسوس کیا۔ وہ اپنی ذات میں صفر تھی، ایسا صفر جو ایک کے ساتھ مل جائے تو سو بنا دے اور ہزار سے ضرب کھائے تو اسکو بھی صفر کردے۔ مجھے نہیں یاد کے ہم کب کیسے کہاں ملے، بس اتنا یاد ہے کہ اسنے مجھ سے کہا ‘آپکی باتوں میں بہت کاٹ ہے، کھل کے بولا کریں’ اور پھر مجھ جیسا کم گو انسان گھنٹون اس سے اسی بات پہ بحث کرتا رہا۔ یہی اسکا کمال تھا، وہ بس کہہ دیتی تھی، اور ضروری نہیں کہ اسے اظہار کیلئے الفاظ کی خوشامد کرنی پڑے۔ اسے نان وربل کمیونیکیشن میں ملکہ حاصل تھا۔ اسکا مطالعہ کم تھا مگر آبزرویشن بہت کمال کی تھی۔ وہ حساس طبیعت تھی اور چھوٹی سے چھوٹی بات محسوس کرلیتی۔ مجھے جب بھی یہ گمان ہوتا کہ میں اسکو جان چکا ہوں تبھی اسکی زندگی کا کوئی مختلف اور انوکھا پہلو میرے سامنے منہ چڑھاتا آجاتا۔ مجھ جیسے خود پسند آدمی کو بغیر کچھ کہے بولے اسنے اپنی پر بات پہ قائل کیا، اپنے الفاظ میری زباں سے ادا کرواتی، اپنے احساسات کا ذکر میری شاعری کے ذریعے کرواتی۔

 جیسے ہر دو لوگوں کے بیچ ایک انوکھی اور اپنی الگ زبان اور کلام ہوتے ہیں، اسکے میرے درمیاں یہ انوکھی زبان خاموشی کی تھی۔ اکثر گھنٹوں ہم خاموش بیٹھے رہتے، مگر ہزاروں باتیں کرجاتے۔ اور یہ عجیب کیمسٹری مزیدار بھی تھی، اسکی خاموشی سے مجھے پتہ چلتا کہ وہ خوش ہے، خفا ہے، کچھ کہنا چاہتی ہے۔ اور زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ خاموشی کا جواب اسکو گفتگو میں چاہیئے ہوتا۔ میں کبھی اسکا اور اپنا رشتہ سمجھ نہ پایا۔ میں اکثر اس سے پوچھتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں، آج ہوں، کل ہوں کیا ہوں میں؟ مگر جواب ندارد۔ فقط ایک بار اسنے کہا، مجھے نہیں پتا تم کون ہو، مگر کچھ ہو ضرور جو میری زندگی میں شامل ہو، میرے قریبوں میں۔

  اسکا اعتقاد بھی عجیب تھا کہ محبت ظاہر کرنے سے اپنا حسن کھو دیتی ہے۔ بے معنی اور بے وقعت ہوجاتی ہے، محبت جب تک مستور رہے، اسکا حسن، اسکی جاذبیت تب تک ہی برقرار رہتی ہے۔ شاید یہی ٹھیک ہو۔ وہ کہتی تھی محبت میں سود و زیاں نہیں دیکھا کرتے۔ محبت بدلے سے پاک ہوتی ہے۔ اگرمیں اس وجہ سے تم سے محبت کروں کہ تمھیں مجھ سے محبت ہے تو وہ تو سودا ہوا۔ میں محبت کروں یا نفرت، اسکا تمھاری محبت، تمھارے جذبات پہ کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے۔ وہ بولی ریس کے گھوڑے کی طرح، محبت کا اندازہ بھی ہارنے کے بعد ہوتا ہے۔ اگر صرف خوشبو تک، یا اسکی خاطر پھول سے پیار رہا تو وہ محبت نہیں، مقصد ہے اور یاد رکھنا، محبت میں مقصدیت نہیں ہوتی”

مگر میرا ہیجان، میرے جذبات تو اس معاملے میں امجد اسلام امجد کی اس نظم کے مصداق تھے

محبت کی طبیعت میں  ؎

 اور اسکی آنکھوں میں مجھے پہلی بار خوف محسوس ہوا۔ وہ شام بڑی عجیب تھی، ہم دونوں سڑک پہ ٹہلتے جارہے تھے، اس نے کہا محبت بندر کا تماشا نہیں جو گلی گلی ہو، یہ تو مور ناچ ہے، جو سنسان جنگل کی خلوتوں میں ہوتا ہے، اور جس کے نصیبوں میں ہو، اسی کو اس کا نظارہ ہوتا ہے مگر یہ منظر مستقل نہیں رہتا، اور ذرا دورجنگل میں مور اپنے پنکھ پھیلائے ناچ رہا تھا۔ واقعی بہت خاص نظارہ تھا۔ میں اس منظر میں کھو سا گیا، جب واپس وقتِ موجود میں آیا تو وہ منظر بدل چکا تھا، وہ شناسا چہرہ کھو چکا تھا۔ اور میں نے ایک راز پا لیا تھا، جس کو وہ خوشبو اور پھول کہتی تھی اور امجد صاحب کی زبان میں

One thought on “مایا

Add yours

Leave a Reply to راجہ اکرام Cancel reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: