Abrar Qureshi Blog

پیش لفظ

پیش لفظ



یہ تحریر آج مورخہ 27 جنوری 2013 کو شام بوقت 8 بجے لکھ دی گئی ہے تاکے سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف دلفریب انداز والے یا مشہور لوگ ہی کیوں لکھیں، کچھ چانس تو ہم نوواردوں کو بھی لینا چاہیئے نا، سو اسی لئے ہم نے ٹھانی ہے کہ ہم بھی اس میدان میں طبع آزمائی کریں، پسند کئے گئے تو سکندر ورنہ بندر!
اس پیش لفظ کا مقصد صرف ایک اضافی پوسٹ نہیں بلکہ ان عوامل کا ذکر کرنا ہے جن کی بناء پر ہم نے اردو بلاگنگ کی ٹھانی ہے۔ لکھنے لکھانے کا کیڑا تو بچپن سے تھا، مگر شرمیلی طبیعت ہمیشہ مانع رہی، پھر کچھ والد صاحب کے غصہ کا ڈر, وجہِ شاعری کے متعلق سوالات وغیرہ وغیرہ
بات فقط اتنی سی ہے کہ بچپن میں ہم ذرا شرارتی واقع ہوئے تو ماں جی نے عجب حل نکالا ہمیں شرارتوں سے باز رکھنے کا، وہ یہ کہ تعلیم و تربیت، پھول، کلیاں وغیرہ والے رسالوں سے کہانیاں انگریزی زبان میں ترجمہ کروانے کو دے دیتیں اور یوں دن بغیر کسی تخریبی کاروائی کے گزر جاتا، جب بڑے ہوئے تو معلوم پڑا امی کو تو خود انگریزی نہیں آتی، بہر صورت اب بچپن گزر چکا تھا تو کچھ مداوا اسکا نہیں ہوسکا۔ وہ تحاریر تو اس قابل نہ تھیں کہ کہیں شائع ہوسکیں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہمیں مطالعہ اور لکھنے کا چسکا پڑ گیا، متعدد خاکے، کہانیاں اور نظمیں لکھ کر احباب سے داد وصول کی۔ پھر بقول شاعر ‘عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن، دو تعلیم میں کٹ گئے دو غمِ روزگار میں۔ پہلے حصولِ علم و دیگر “کمالاتِ فن” کےسیکھنے میں لکھنے لکھانے سے دور رہنا پڑا، بعد کی رہی سہی کسر فکرِ روزگار نے نکال دی، اور اب اس عمر میں لکھنے کا خیال آیا ہے جب لوگ لکھا لکھایا مٹانے کو تلے ہوتے ہیں۔
میں جب سوشل میڈیا پر وارد ہوا تو یہاں سب ہی ‘کاٹھے انگریز’ ٹکرے، کوئی اردو کو منہ تک نہیں لگاتا تھا، مرتے کیا نہ کرتے انگریزی میں ڈنیگیں مارنی شروع کیں تو وہ مدیروں کے ناک سے نیچے نہ اترتیں اور نا قابلِ اشاعت رہتیں، سو ہم نے اپنا بلاگ بقلم خود شروع کرلیا، خود ہی لکھتے خود ہی پڑھ کر دادِ تحسین دیتے۔ دن گزرتے رہے اور ہم اپنے تیئں سنورتے رہے کہ ٹوئیٹر پہ ہماری چند ادب پسندوں سے شناسائی ہوئی، اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ، گرچہ کم کم مگر اردو زبان میں بھی بلاگنگ ہورہی ہے اور کیسے کیسے نابغہ روزگار لوگ اس عہد میں ہیں۔ اللہ جزا دے ان لوگوں کو جو اس دور میں اردو بلاگنگ کررہے ہیں اور خوب کررہے ہیں۔ ہر نیا دریافت شدہ بلاگ پچھلے سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ اکثر بلاگ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اردو بلاگنگ باقاعدہ ایک صنفِ سخن ہوگی۔
سب سے پہلا بلاگ جو نظروں کے سامنے سے گزرا وہ محترم جعفر بھائی کا حالِ دل تھا۔ ابھی انکے سحر سے نکلنے نہ پایا تھا کہ انہوں نے عمر بنگش کا بلاگ صلہ عمر ٹوئیٹر پہ شیئر کیا، انکا انداز بھی بہت دلفریب اور آخرش ڈفر صاحب کا ڈفرستان تو جیسے میرے اندر کے موئے مکے لکھاری کیڑے کو اجاگر کرنے کیلئے دوا ثابت ہوا۔ سو میں نے بھی ٹھان لی، کوئی پڑھے نہ پڑھے، ہم تو لکھیں گے اور اردو ہی میں لکھیں گے۔ اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اگر ہمارا انداز یا تحریر پسند نہ آئے تو ان حضرات کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔
اب افتاد یہ درپیش ہے تا دمِ تحریر بھی “چٹا ککڑ بنیرے تے” ہے اور “کاسنی دوپٹے والی” منتظر ہے کہ کب “منڈا عاشق تیرے تے” ہو۔ اگر خدا نخواستہ ہمارا بلاگ چل نکلا تو مزید لکھیں گے، ورنہ پہلے کی طرح ہی “کبھی روز ابر و شبِ ماہتاب میں”۔ والسلام