Abrar Qureshi Blog

لاھور لاھور ہے

لاھور لاھور ہے


 کوئی مانے یا نہ مانے، ہم اپنے تیئں ایک ادیب واقع ہوئے ہیں۔ اور جیسے تمام بڑے ادیب کہیں جانے سے پہلے اسکے بارے پوچھ پاچھ اور پڑھ پڑھا کر جاتے ہیں اور وہاں جاکر اسی  پڑھے پڑھائے کو اپنے انداز میں بیان کردیتے ہیں۔ تو ہم نے بھی لاہور آنے سے پہلے پطرس بخاری کا “لاھور کا جغرافیہ” پڑھا۔ اب جو یہاں آئے تو کچھ تبدیلیاں پائیں سو انکو رقم کرنا مقصد ہے۔

آج کا لاہور:

پطرس بخاری نے 50-60 سال پہلے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ لاہور دریافت ہوچکا ہوا ہے اور اسکے سابقے لاحقے بتا کر علمیت کا رعب جھاڑنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ کہ بڑے درست کہتے تھے، لاہور لاہور ہے۔ سچ مانیں لاہور واقعی آج بھی لاہور ہی ہے۔ دنیا بدل گئی مگر لاہور نئیں بدلا۔ البتہ اب کچھ نئی ورائٹی آگئی ہے۔ جو شہر کبھی مغلوں کا تھا اب اس میں مغلاپا، مغلپورہ تک ہی رہ گیا ہے، ثقافتی اعتبار سے بھی شاہی قلعے سے شاہی محلے تک کا سفر طے ہوچکا ہے ۔  رنگ بازی آج بھی ویسی ہی ہے۔ ہمیں بچپن سے روای کے بارے بتا یا گیا تھا کہ ایک دریا ہے جو لاہور کے گرد بہتا ہے، جب بقلم خود دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ ایک نالہ ہے جو بھینسیں نہلانے کیلئے مختص ہے اور پانی اسقدر کالا کہ اکثر اس میں نہاتے ہوئے بھینسیں گوری لگتی ہیں۔

لاہور  کبھی صرف ان بارہ دروازوں اور چند ایک سڑکوں پر مشتمل تھا جس کو کچی لسی کی طرح کھینچ کھینچ کر بے تحاشا بڑھا دیا گیا ہے اور آج  بھی یہ شہر ایسے بڑھ رہا ہے جیسے غریب کے بچے۔  لاہور میں بھانت بھانت کے لوگ ملتے ہیں اصل لاہوریئے کی پہچان البتہ اب بھی انکی ٹریڈ مارک گالیاں ہیں جسکے بارے یہاں ہم نے سنا کہ “گالی ایسی ہونی چاہیئے کہ بھینس سنے تو دودھ دینا بند کردے”۔

کل کے لاہور کی زینت تانگے تھے اور سڑکوں پہ جابجا انہی کی ‘خاموش مذمت’ کے آثار ملتے تھے جبکہ آج کا لاہور رکشوں کا مرہونِ منت ہے اور فضا میں پھیلا دھواں اسکا غماز ہے۔ وہ عمارتیں جو گزشتہ صدیوں میں بادشاہوں نے اپنی شان و شوکت بڑھانے کیلئے تعمیر کروائی تھیں اب ظالم سماج سے چھپ کر اظہار و افکارِ محبت کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ لاہور جو مغلوں اور انگریزوں کے فنِ تعمیر کا شاہکار تھا آجکل سلطنتِ شریفیہ  کی تعمیرات کا عکاس ہے، ہر ممکن جگہ کے اوپر فلائی اور اور نیچے انڈر پاس بنادیئے ہیں تاکہ بارش کے پانی کو ضائع ہوکر نالیوں میں بہنے سے بچایا جاسکے اور عوام بارش کے بعد بھی اسکے پانی سے لطف اندوز ہوسکیں۔

جہاں قدیمی لاہور کی ہر چیز سمٹ کر ناپید ہوتی جارہی ہے وہیں مغلوں کی خوابگاہوں سے نکل کر خواجہ سرا لاہور کی سڑکوں تک آگئے ہیں، ایک محتاط ادازے کے مطابق لاہور میں رکشوں اور کھسروں کی تعداد تقریباً ایک جتنی ہے اور  برابر بڑھتی جارہی ہے۔

لاہور کی ٹریفک:

لاہور کی سڑکوں پہ ٹریفک اتنی ہے کہ گمان ہوتا ہے شاید سارا لاہور ہی سڑکیں چھاپنے نکلا ہوا ہے۔ اور بے ہنگم اسقدر جیسے کسی بے سرے پاپ سنگر کا گانا۔ ہم ساری عمر اسلام آباد میں اپنی لین میں چلنے کے عادی، ہمیں کیا خبر کہ اس طوفانِ بدتمیزی سے کیسے نبردآزما ہونا ہے۔ پہلے پہل تو بہت گھبراہٹ ہوئی مگر پھر ہمت کرکے

بے خطر کود پڑا ٹریفکِ لاہور میں عشق

ٹریفک وارڈن ہیں محوِ تماشا سرِ عام ابھی

ساری دنیا میں ٹریفک کے ٹریکس آنے اور جانیوالی گاڑیوں کیلئے مختص ہوتے ہیں، لاہور میں البتہ اسکا نیا استعمال یہ دیکھا کہ آپ یہاں سے بھی آ جا سکتے ہیں اور وہاں سے بھی۔ لوگ اتنے ملنسار ہیں کہ رانگ وے سے آنے پر بھی ویسے ہی مسکراتے ہیں جیسے رائٹ وے سے آنے پر۔

 کی سڑکوں پہ قابلِ غور وہ بچے ہیں جو سلطان گولڈن بننے کی آرذو میں موٹر سائیکل پہ فری آف کاسٹ کرتب دکھاتے ہیں اور دوسرے نمبر پہ وہ رکشہ والے جو پریکٹس تو شاید موت کے کنویں پر کرتے ہیں اور چلاتے لاہور کی سڑکوں پر ہیں۔ ان پر وہ عربیوں کے اونٹ والی مثال صادق آتی ہے اگلا پہیہ گھسانے کی جگہ مل جائے تو باقی رکشہ زبردستی گھسا لیتے ہیں۔ رکشہ والے تو لاہوری سڑکوں کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ جیسے اونٹ صحرا کا  جانور ہے ویسے ہی رکشہ لاہور کا جانور ہے۔

لاہوریوں کا بیان:

ہم نے ابھی تک کوئی اوازار لاہوریا نئیں دیکھا۔ لاہوری بہت خوش مزاجیے اور خوش خوراکیے ہوتے ہیں۔ خوش خوراکی کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ ساری دنیا شادی میں ‘شرکت’ کرتی ہے اور لاہوریئے شادی ‘کھانے’ جاتے ہیں۔ بلکہ بقول شخصے لاہوریئے کھانا ثواب سمجھ کے کھاتے ہیں۔ یہاں کے پکوان بھی لذیذ ہیں اور بے تحاشا ہیں۔ وہ انگریزی کہاوت ہے نا “یو نیم اٹ اینڈ دے ہیو اٹ” اب اس بات سے میرا مقصد ہرگز علاقائی برتری ثابت کرنا نہیں۔ ہریسے سے لیکر کتلمے تک اور کلچوں سے لیکر چنوں تک، توا چکن سے لیکر مکھنی کڑاہی اور پراٹھوں سے لیکر پٹھوروں تک سبھ کچھ لاجوب ملتا ہے۔  یہاں دیگر چیزوں کے علاوہ مچھلی کمال کی ملتی ہے،  قابل ذکر سردار مچھلی،صدیق دارلماہی اور بشیردارلماہی بلکہ مشتاق یوسفی صاحب کے الفاظ میں جیسے مصر تحفہ نیل ہے ویسے ہی لاہور تحفہ بشیر ہے (عقلمند کو اشارہ کافی وغیرہ وغیرہ)۔ ان سب دارلاماہیات پر ایک ہی تصویر لگی ہوئی ہے  اور دوسروں کو نقالوں سے ہشیار رہنے کی تاکید بھی کرتے ہیں، اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔

اس شہر نے اردو ادب کو ایسے ایسے نابغہ روزگار ادیب دئیے کہ دنیا ان پہ رشک کرتی ہے مگر آج بھی یہاں چوک ‘چونک’ اور گھاس ‘گھانس’ ہے ۔ رطب السانی ان بیان ایبل گفتگوہات میں زوروں پر ہوتی ہے اور زبان و بیان کا اعلیٰ درجے اور ذو معنی مطالب کا میلہ سا لگا رہتا ہے۔

لیکن کیا کیا جائے کہ اس لاہور میں ان تمام کج ادائیوں کے باوجود محبوباؤں والی خوبیاں ہیں کہ جی چاہنے کے باوجود چھوڑا نہیں جاسکتا۔