Abrar Qureshi Blog

رمضان المبارک اور ویلی مائیاں

رمضان المبارک اور ویلی مائیاں


اس سال ماہ رمضان کا پھر سے گرم موسم نے دوبالا کردیا ہے اور اس میں حسبِ سابق واپڈا نے اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا ہے، اس پہ طرہ  یہ کہ پورا رمضان معروف مذہبی اسکالر (عنقریب شیخ الاسلام) ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب سحر و افطار میں بلاناغہ ٹی وی کی زینت بنے رہتے ہیں۔ اس سال کی آنیاں جانیاں، پھرتیاں اور اچھل کود دیکھ کر لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب میں ساحر لودھی کی بھٹکی روح آگئی ہے۔  یہ پوسٹ ان لوگوں کیلئے ہے جو رمضان المبارک میں سب سے آئٹم چیز ڈاکٹر صاحب کو گردانتے ہیں، یقیناً انکا واسطہ کسی ویلی مائی سے نہیں پڑا۔ ببل گم، کچی لسی اور ویلی مائیوں کو جتنا ودا لو ودتی جاتی ہے۔ یہ بالکل وہی مائیاں ہیں جنکے بارے وہ انگریزی کہاوت ہے کہ جب بولتی ہیں تو شیطان کمرے کی نکڑ میں بیٹھ کر چپ چاپ سنتا اور برابر نوٹس لیتا ہے۔

ایسی مائیاں ہر گلی محلے میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ ویسے تو حضرت خضر کی ہم عمرہونگی مگر بالوں کو رنگ کر کے سوہنے کپڑے پہن کر ماڈرن کڑیاں بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ عمر اور تجربے کے لحاظ سے تو وہ ہمارے بزرگوں کی بزرگ لگتی ہیں مگر ماننے سے انکاری کہ ‘خیالِ زُہد ابھی کہاں، ابھی تو میں جوان ہوں’۔  زیادہ تر ان میں سے ریٹائرڈ استانیاں ہوتی ہیں۔ شادی یا تو کرتی نہیں یا بھگتا چکی ہوتی ہیں، جس کسی کا خاوند بچا ہو وہ بیچارا یا تو بلادِ غیریہ میں اماں لیتا ہے یا تمام عمر محلے کا منیٹر بن کے رہتا ہے۔ عموماً گلی محلے کا ایک ہی سکول ہوتا ہے جہاں سے دادا پڑھا وہیں سے پوتا اور اتنی دراز عمر استانیاں ہوں تو عجب نہیں کہ باپ بیٹا ایک ہی استاد سے سبق پڑھیں اور نہ بھی پڑھیں تو جیسے ہر پیدا ہونے والا بچا بائی ڈیفالٹ ڈالروں کا مقروض ہوتا ہے ویسی ان کی عزت و تکریم کا بھی پیدائشی مفروض ہوتا ہے۔ بیشتر مائیاں بعد از ریٹائرمنٹ محلے میں فی سبیل اللہ بچوں کو ٹیوشن اور خواتین کو گھرگرہستی پڑھاتی ہیں اور یہ انکی انفارمیشن کا پرائمری سورس ہوتا ہے۔ ٹیوشن فیس کی بجائے گھریلو حالات پوچھتی ہیں محلے کی خان جنگیوں اور سردمہریوں پہ خصوصی نظر رکھتی ہیں۔ محلوں میں انکا رول کم و بیش وہی ہوتا ہے جو گاؤں دیہاتوں میں پنجائیت کا۔ بلاوجہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑائیں گی۔ انفارمیشن اور اپ ڈیٹڈ انفارمیشن بڑی ضروری ہوتی ہے۔ بقول شخصے انکا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کونسی خبر پہلے کس نے بریک کی بلکہ اکثر نے تو ڈائری بنائی ہوتی ہے جس میں پوائنٹس نوٹ کرتی ہیں اور شاید مہینہ وار جیتنے والی خوش نصیب کو باقی مائیاں ٹریٹ دیتی ہیں۔

انکے کمرے کی کوئی نہ کوئی کھڑکی باہر گلی میں ضرور کھلتی ہے اور مصداق اس شعر کہ “بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی گذر کے جائے کیوں” ہر آنے جانے والے پر مکمل نظررکھتی ہیں۔ گھر کا کام کاج ٹیوشن والے بچے بچیاں کردیتے ہیں یہ ان کو سبق دے کر ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی  کرتی ہیں اسی لیئے انہیں اکثر محلے میں چلنے والے افیئرز کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور اکثر رشتے بھی یہی  کرواتی ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہیں اور مہینوں پہلے ہی محلے کی آبادی میں مجوزہ اضافے کا عندیہ  بھی دے دیتی ہیں۔  ہم تو ایسی کھڑکیوں کو پولیس چوکی کہا کرتے تھے کہ اتنی انوسٹگیشن وہیں ہوتی ہے۔ انٹری ایگزٹ کا ٹائم برابر نوٹ ہوتا تھا اور کسی بھی قسم کی دیر سویر گھر میں رپورٹ ہوتی تھی۔ جب بھی کھڑکی کے سامنے سے گزرتے سوال آتا “ماں ستی اے کہ جاگدی پئی اے” پھپھو دا کی حال اے۔ رزلٹ آگیا؟ کتنے نمبر آئے؟ اتنے کم کیوں آئے، بشریٰ کی بیٹی کا تو اے گریڈ آیا ہے؟ آگے کہاں ایڈمیشن لے رہے ہو؟ کہاں جارے ہو؟ ذرا مجھے نلکی لا دینا سرخ رنگ کی اور تھوڑی دہی بھی اور ذرا سا دھنیا پودینا بھی اور دیکھنا نکڑ پہ پھل والا ہوا تو ایک خربوزہ پکڑ لانا۔ پیسے میں تمھاری اماں کو دے دونگی۔ ایسے میں ہر بچے کی کوشش ہوتی کہ یا تو ادھ بیٹھ کر چوکی کراس کرے یا بجلی کی تیزی سے گزرے کہ ریڈار کی زد میں نہ آسکے۔ محلے کا کوئی پڑھا لکھا بندہ ریڈار میں پھنس جائے تو انگریزی میں انٹرویو ضرور لیتیں۔ انگریزی بولنے میں کیا ملکہ حاصل تھا مگر ستیاناس جائے فرنگییوں کی ناقص زبان کا کہ استانی جی کی سپیڈ کے آگے انگریزی کے لفظ ختم ہوجاتے اور اکثر آواز کا اتار چڑھاؤ ایسا ہوجاتا جیسے سائیکل چلاتے ہوئے مفلر پہیے میں آجائے تو گلا رندھ جاتا ہے۔

ایک قدر ایسی تمام مائیوں میں مشترک ہوتی ہے جسے پنجابی میں ‘وارا’ لینا کہتے ہیں۔ یعنی جب دو عورتیں بات کررہی ہوں اور ایک زیادہ شاطر ہو اور دوسری کو بولنے کا موقع نہ دے تو اسکو وارا نہ لینے دینا کہتے ہیں۔ خواتین کے نزدیک آداب بحث کے سخت خلاف ہے یہ بات۔  اپنی اور اپنوں کی تعریف میں ماہر ہوتی ہیں اور زمین آسمان کے قلابے تو شاعر بھی ملا لیں یہ مریخ اور دوسری گلیکسیاں ملادیتی ہیں۔ انکے موڈ کی سمجھ نئیں آتی۔ سہیلیوں میں ہونگیں تو کبھی اپنوں کی ستم ظریفیاں اور کبھی غیروں کا تذکرہ اور اپنوں میں بیٹھیں گی تو سہیلیوں کی نظراندازیوں کے گلے۔ خیر، ان مائیوں کا حلقہء احباب چونکہ بہت وسیع ہوتا ہے اسی لیئے انکے پاس بے انتہاء کیس سٹڈیز ہوتی ہیں رشتوں سے لیکر بچوں اور خوشگوار زندگی سے لیکر طلاق کے قصوں، جن بھوتوں کی ہوشربا داستانوں سے لیکر ناگہانی آفات و بیماریوں کی باتیں۔ آپ کسی مرض کا نام لے کر دیکھ لیں وہ ان کو یا انکی کسی استانی کو یا اسکے خاندان میں کسی کو ہوچکا ہوگا۔ کثرتِ تعلیم و تجربے کے باعث سلیف میڈ ڈاکٹر بھی ہوتی ہیں اور موقع محل دیکھ کر مشورہ داغ دیتی ہیں۔   مثلاً کسی کو مسلسل تین چار دن سے گلے میں خراش کے سبب کھانسی ہے تو بجائے کھانسی شربت کا کہنے کے پہلے ایسی کوئی ہوشرباء داستان سنائیں گی کہ کیسے اسنکی کسی سہیلی کا جوان رشتہ دار معمولی سی لاپرواہی کے سبب سسک سسک کر کسمپرسی کی حالت میں دم توڑ گیا پھر انکشاف کریں گی کہ بیٹا تجھے ٹی بی ہے ، وقت سے پہلے علاج کروالے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔ ان سب کی یادداشتیں بہت تیز ہوتی ہیں۔ اور اکثر انکی پٹاری ایسے واقعات سے بھری ہوتی ہے جو بچپنے میں آپ سے سرزد ہوئے اور وہ رہتی دنیا تک آپ کی بِستی کیلئے کافی ہیں۔ مثلاً محلے کا کوئی نیا شادی شدہ جوڑا دیکھ لیں تو فوراً بولیں گی ماشاء اللہ کتنی پیاری بیوی ملی ہے تو ایویں وہ سامنے والی کے  پیچھے پاگل ہوا پھرتا تھا، بہو اسکا خاص خیال رکھنا بڑا جھلا ہے یہ بچپن میں زپ بند کرتے اکثر نونو پھنسا لیتا تھا۔ اور کسی باپ بیٹے کو ساتھ دیکھ کر انہیں باپ کے بچپن کے ایسے قصے یاد آئیں گے جن سے وہ باپ آج اپنی اولاد کو منع کرتا ہے۔ مثلاً آپ نے صبح ہی اپنے بچے کی سرزنش کی کہ بیٹا بستر پہ پیشاب کرنا بری بات ہے اور سرِشام ہی شومئی قسمت محلے کی استانی نے پول کھول دیا کہ “بیٹا جب آپ کے بابا چھوٹے ہوتے تھے نہ تو روز بیڈ پہ سُوسُو کردیتے تھے’ بچہ معنی خیز نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھتا ہے اور باپ نظریں ملانے قابل نئیں رہتا۔

زمانے بھر کو باتوں میں پورا کرکے انکی باتوں کی ایسی پریکٹس ہوچکی ہوتی ہے کہ سو باتیں فی سیکنڈ کی سپیڈ سے بولتی ہیں جس کو سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ بلکہ غالب گمان تو یہ ہے کہ اتنی سپیڈ سے انکے فرشتے بھی مکمل  نوٹ نہیں کرپاتے ہونگے اور بعد ازاں ان کی ڈائری سے دیکھ کر دائیں اور بائیں والی باتیں الگ الگ کرکے نوٹ کرتے ہونگے۔  انکی  وارا،  نہ لینے کی عادت بارے ایک تشویش یہ ہے کہ جنت میں جاکر فرشتوں کے کان کتریں گی اور وہاں بھی کسی کو وارا نہیں لینے دیں گی۔ وہاں البتہ گفتگو ایسی ہوا کرے گی “ارے تمھیں پتہ ہے میری جنت کے بغل سے دودھ کی نہر گذرتی ہے” جواب:”اس میں کیا بڑی بات ہے میری نند کی بھاوج کی دیورانی کے گھر کے اندر سے دودھ کی نہر گزرتی تھی مگر انہوں نے ڈئزاین بدلا تو بند کروا دی”۔  اب بھی ہم کسی ایسی کھڑکی سے گزرتے ہیں اور مانوس آواز نہیں پاتے تو دل بیٹھا جاتا ہے، بلاشبہ ایسی ویلی مائیاں محلوں کی شان ہوتی ہیں اور محلوں کی رونق اور تعلق داری کی ضامن ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ ناپید ہورہی ہیں محلے بے رونقے اور انجان بنتے جارہے ہیں۔