غزل | تیری عنایتوں پہ گلہ نہیں ہرچند بے معنی و بے اثر ہیں
تیری عنایتوں پہ گلہ نہیں ہرچند بے معنی و بے اثر ہیں
کہ میرا کُل اثاثہ ، لفظ ہیں یہی ، سو تیری نذر ہیں
خود فریبی کے ریگزاروں سے آگے نکل کے دیکھو
سب کے پاؤں چھلنی مگر سبھی عازمِ سفر ہیں
کس کو دوں صدائیں ، کون میری اب سُنے گا ؟
میں کہ غریب ٹھہرا اور ہمسفر سبھی صاحبِ زر ہیں
ہے جس رہگزر سے گُریز مجھے ، اسی پہ تیرا آشیاں
تیرے آشیاں کی راہگزر پہ خواہشوں کے کھنڈر ہیں
سیاہ رات کے پیرہن سے جھانکتے یہ ستارے
تیرگی کے آنچل میں نئی صبح کے مظہر ہیں