آپ نے نہاری پیک کروائی اور دکان سے نکلنے ہی والے ہیں کہ ایک نامانوس سی آواز کانوں میں گھسے گی ‘پائی جان شاپر ڈبل کرالو نئیں تے رُڑ جائیگی جے” ایسے بہت سے خدائی خدمتگار ہر روز متعدد بار آپکو کسی نہ کسی معاملے میں مفید مشورہ دیتے ملیں گے وہ بھی فائدے نقصان سے بے نیاز۔ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے ڈھیر سارے سیانے رہتے ہیں، اکثریت ان میں سے ویلے ہیں تو بس بیٹھے بیٹھے عوام کی فلاح و بہبود کے واسطے خونِ جگر جلاتے ہیں، تدبیریں کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو عرفِ عام میں سیاستدان کہتے ہیں، اور کچھ کریں نہ کریں شاپر ضرور ڈبل کرواتے ہیں۔
انتخابات قریب ہیں اور اس سارے عمل کو کیا تشبیہ دی جائے، بڑا سوچا میں نے مگر کچھ نہ ملا۔ البتہ سبزی منڈی جانے کا منظر یاد آگیا۔آپ سب کبھی نہ کبھی تو سبزی منڈی گئے ہی ہونگے۔ وہاں سب سٹالز مختلف کیٹگریز کے حساب سے لگے ہوتے ہیں۔ آلو پیاز کا لاگ سیکشن، پھل فروٹ کا الگ سیکشن، سلاد کا الگ سیکشن اور دیگر سبزیاں جابجا سٹالز پہ بکھری پڑیں۔ آپ کو دیکھتے ہی سب دکاندار یک زباں ہوکر آوازیں لگاتے ہیں کوئی گا بجا کر، کوئی ترنم سے، کوئی ٹیلیفونک بانگیں دیتا ہے۔ آلو لے لو، کھیرے لے لو، ٹنڈے لے لو، نمبو لے لو، کیلا لے لو، تربوز لے لو۔ بہت سے دکاندار تو ایک سی چیز ہی بیچ رہے ہوتے ہیں مگر مختلف ادا سے۔ جیسے صرف اگر آلو پیاز کو ہی لے لیں، بیسیوں سٹالز پر ویسے ہی آلو پیاز بک رہے ہوں گے۔ کوئی قیمت ایسے بیان کریگا کہ آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ‘مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے’ کچھ اسکے ‘امپورٹڈ’ ہونے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرینگے، اور کچھ خالی خولی شخصی گرنٹیاں دیں کر کام چلاتے ہیں۔ اب مجبوری ہماری یہ ہوئی کہ کچھ نہ کچھ تو بازار سے لے کر ہی جانا ہے ورنہ جو کچھڑی بالجبر پکتی ہے وہ 9-10 سال تو کہیں جاتی نئیں۔ تو آپ اپنی دانست کے مطابق ‘دی بیسٹ’ مال خریدتے ہیں، حالانکہ آلو پیاز تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک ہی زمین سے اگتے ہیں، قیمت بھی سب کی کم و بیش ایک سی ، بس بیچنے والے کا انداز جدا۔
۔