Abrar Qureshi Blog

انتخابی منشور

انتخابی منشور


آپ نے نہاری پیک کروائی اور دکان سے نکلنے ہی والے ہیں کہ ایک نامانوس سی آواز کانوں میں گھسے گی ‘پائی جان شاپر ڈبل کرالو نئیں تے رُڑ جائیگی جے” ایسے بہت سے خدائی خدمتگار ہر روز متعدد بار آپکو کسی نہ کسی معاملے میں مفید مشورہ دیتے ملیں گے وہ بھی فائدے نقصان سے بے نیاز۔ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے ڈھیر سارے سیانے رہتے ہیں، اکثریت ان میں سے ویلے ہیں تو بس بیٹھے بیٹھے عوام کی فلاح و بہبود کے واسطے خونِ جگر جلاتے ہیں، تدبیریں کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو عرفِ عام میں سیاستدان کہتے ہیں، اور کچھ کریں نہ کریں شاپر ضرور ڈبل کرواتے ہیں۔

 سیاست ہمارے ملک میں جنسِ ارزاں بن چکی ہے۔ آئیڈیالوجی کے نام پر ایسی ایسی سب-اسٹینڈرڈ اشیاء مارکیٹ میں برائے فروخت ہیں کہ خدا کی پناہ۔ بس دکان اچھی سجا لی ہے، رنگ برنگی جھنڈیاں بھی لٹکالی ہیں اور ہر آنیوالے گاہک کو ‘چائے یا ٹھنڈا’ بھی پوچھ لیتے ہیں تو بیچارے خریدار بھی دامِ شیندن میں آجاتے ہیں اور وہی خرید کر کارِ ہستی چلاتے ہیں۔

انتخابات قریب ہیں اور اس سارے عمل کو کیا تشبیہ دی جائے، بڑا سوچا میں نے مگر کچھ نہ ملا۔ البتہ سبزی منڈی جانے کا منظر یاد آگیا۔آپ سب کبھی نہ کبھی تو سبزی منڈی گئے ہی ہونگے۔ وہاں سب سٹالز مختلف کیٹگریز کے حساب سے لگے ہوتے ہیں۔ آلو پیاز کا لاگ سیکشن، پھل فروٹ کا الگ سیکشن، سلاد کا الگ سیکشن اور دیگر سبزیاں جابجا سٹالز پہ بکھری پڑیں۔ آپ کو دیکھتے ہی سب دکاندار یک زباں ہوکر آوازیں لگاتے ہیں کوئی گا بجا کر، کوئی ترنم سے، کوئی ٹیلیفونک بانگیں دیتا ہے۔ آلو لے لو، کھیرے لے لو، ٹنڈے لے لو، نمبو لے لو، کیلا لے لو، تربوز لے لو۔ بہت سے دکاندار تو ایک سی چیز ہی بیچ رہے ہوتے ہیں مگر مختلف ادا سے۔ جیسے صرف اگر آلو پیاز کو ہی لے لیں، بیسیوں سٹالز پر ویسے ہی آلو پیاز بک رہے ہوں گے۔ کوئی قیمت ایسے بیان کریگا کہ آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ‘مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے’ کچھ اسکے ‘امپورٹڈ’ ہونے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرینگے، اور کچھ خالی خولی شخصی گرنٹیاں دیں کر کام چلاتے ہیں۔ اب مجبوری ہماری یہ ہوئی کہ کچھ نہ کچھ تو بازار سے لے کر ہی  جانا ہے ورنہ جو کچھڑی بالجبر  پکتی ہے وہ 9-10 سال تو کہیں جاتی نئیں۔ تو آپ اپنی دانست کے مطابق ‘دی بیسٹ’ مال خریدتے ہیں، حالانکہ آلو پیاز تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک ہی زمین سے اگتے ہیں، قیمت بھی سب کی کم و بیش ایک سی ، بس بیچنے والے کا انداز جدا۔

 بالکل یہی حال ہمارے یہاں انتخابات کا ہے۔ سب سیاسی دکاندار اپنا مال سجائے بیٹھے ہیں، مال کم و بیش ایک جیسا ہی ، افادیت و خصوصیات بھی ایک سی اور ہماری مجبوری بھی وہی کہ انہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔ ہاں کچھ شعبدہ باز البتہ پرانے باسی مال پر نیا ‘ترونکا’ لگا کر ‘نیا’ کہہ کر لائے ہیں  سرِ بازار۔ اب ذرا غور کریں تو سبھی سیاسی جماعتوں کا نعرہ جدا جدا مگر ہدف و مقصد ایک ہے، یعنی اقتدار۔ کوئی اپنے ماضی کے کارناموں کو دہرا رہا ہے تو کوئی وعدہ ء فردا کی صدا لگا رہا ہے،  کوئی بنامِ شریعت فروخت کررہا ہے تو کوئی روٹی کپڑا و مکان میں لپٹا شہیدوں کا خوں دکھا رہا ہے۔ کبھی نہ کبھی ہم ان سب دکانوں سے کچھ نہ کچھ خرید بیٹھے ہیں، ان سب کا مال ٹرائیڈ اینڈ ٹیسٹڈ ہے۔ ہاں اس بار اک نیا دکاندار آیا ہے جس نے باقی سٹالز سے سامان چن چن کر اپنی دکان سجائی ہے اور نئے نعرے و جوش و ولولے کیساتھ سرِ بازار می رقصم ہے۔

 مجبوری انکی بھی ہے کہ یہیں بیچنا ہے باہر کوئی خریدتا نہیں اور ہماری یہ مجبوری کے باہر سے خرید نہیں سکتے جا کر، خدارا  ووٹ ڈالنے سے بس ایک بار یہ ضرور سوچ لینا کہ یہ موقع بار بار نہیں ملنا، ووٹ امانت ہے، اس میں خیانت نہ کیجئے گا کہ خمیازہ پوری قوم بھگتے گی، اور ذاتی پسند ناپسند اور میڈیائی خبروں کی بجائے تمام پارٹیز کے انتخابی منشور کو پڑھ کر اور اسے ڈیلیور کرنے کی قابلیت کے حساب سے ووٹ دیجئے گا،کہیں پھر سے خدا نخواستہ جبری کچھڑی نہ پک جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

۔