(باس و بیگم سے معذرت کیساتھ)
نوکری میں باس اور شوہری میں بیگم، مقام و مرتبہ میں ایک جیسے اور اگر دیکھا جائے تو دونوں اک دوسرے کی ضد ہیں، سوکنوں والا رشتہ سمجھ لیں۔ دونوں سے رشتہ ایجاب و قبول اور جانبین کے دستخط کے بعد باقاعدہ لکھت پڑھت سے طے ہوتا ہے۔ اور یقین جانئیے دونوں رشتے طے کرنے میں شوہر اور نوکر کی دلی خواہش و کیفیت کم و بیش ایک سی ہوتی ہے۔ نوکری کا انٹرویو باس لیتے ہیں، شوہری کا ساس اور باس کے نخرے اٹھانے کے پیسے ملتے ہیں جبکہ بیگم کے نخرے اٹھانے پر زن مرید ہونے کے طعنے۔ حسب نسب چال چلن کریکٹر سرٹیفیکیٹ، میڈکل فٹنس اور قابلیت و اہلیت کی مکمل جانچ پڑتال بھی دونوں صورتوں میں کی جاتی ہیں۔ یاد رہے یہاں ‘ارینجڈ’ نوکری اور شوہری کی بات ہورہی ہے۔ آ بیل مجھے مار والے کیس میں تو گواہ چست مدعی سست والا معاملہ ہوتا ہے اور پکی پکائی کھیر پیش کردی جاتی ہے۔ یہ تو رہی پہلے کی بات۔ اصل معاملہ تو بعد میں شروع ہوتا ہے۔ باس کہتا ہے تم صرف میرے ہو، میرے ہی رہنا اور بیگم بھی یہی کہتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ دونوں کا آپسی تعلق سوکنوں جیسا ہوتا ہے۔ سوکن سے بدلہ لینا ہو شوہر کو نچایا جاتا ہے، دوسری کو جلانا ہو تو تھوڑا پیار جتایا جاتا ہے، یہاں بھی ہوبہو معاملہ ویسا ہی ہے۔ شاعر کبیرؔ اس سارے معاملے کو اپنے دوہوں میں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
؎ چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیرؔا رو
دو پاٹن کے بیچ، ثابت بچا نہ کو
ایک پاٹ باس ہوا اور دوسرا بیگم۔ دونوں مکمل وقت اور توجہ مانگتے ہیں۔ پیورٹی آف ہارٹ جسکو شاید وفاداری اور لائیلٹی کہا جاسکتا ہے وہ بھی مانگتے ہیں، عمر بھر ساتھ نباہ کرنے کے وعدے، اعادے اسکے سوا۔ اور دونوں پاٹوں کے بیچ پستا ہوا بیچارہ نوکر ہو یا شوہر، صرف باس و بیگم کے نخرے ہی اٹھاتا ہے۔ کسی بھی بات پر موڈ آف ہوا تو غصہ اسی غریب پر اترے گا۔ باس کے باس یا بیگم کی ساس نے کچھ کہہ دیا تو لعنت ملامت اور طعنے بھی اسی کے نصیب میں۔ کارِ منصبی میں رازدارانہ مشورے دینا، باتیں سننا، موقع بموقع تعریفیں کرنا، دل بہلانا شامل ہے۔ نوکر اور شوہر کی صبح اگر ‘آج بہت اچھی لگ رہی ہو’ اور ‘باس بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں’ سے شروع نہیں ہوتا تو شام تک بھگتتا رہتا ہے۔ صبح بیگم کی سن کر نکلتا ہے، دن بھر باس کی سنتا اور مانتا ہے، شام ڈھلے پھر بیگم کی سنتا اور مانتا ہے۔ یعنی بقول شاعر ‘رات دن یوں گزرتے ہیں، صبح باس، شام میں بیگم کو بھگتتے ہیں’۔ عمر گزر جاتی ہے دونوں کو خوش رکھنے کی دوڑ میں مگر اخیر میں یہی سننے کو ملتا ہے ‘تم نے آج تک کونسا سکھ دیا مجھکو’۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی چھٹی پر ہو تو غریب کی عید ہوجاتی ہے۔