Abrar Qureshi Blog

ویمنز ڈے :خواتین کا عالمی دن

ویمنز ڈے :خواتین کا عالمی دن


 یقین جانیں میں نے کچھ نئیں تھا لکھنا ویمنز ڈے کے حوالے سے، کیوں؟ اسکی وجہ کنایتاً بیان کرچکا ہوں پہلے، تفصیلاً آگے چل کر بتاؤں گا۔ ویسے کوئی اگر یہ بتا دے کہ عورتوں کا دن منایا کیسے جائے؟ اگر آپ کہیں کہ خواتین کو اور انکے کام کو سراہا جائے تو وہ ایک دن کا قصہ نہیں روز کی بات اور ضرورت ہے۔ سیمیناروں سے اگر کوئی کام ہوتا تو یقین جانیں محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی حملہ آور ہونے کی بجائے فقط ایک سیمینار منعقد کرتے اور کام ہوجاتا۔ اور ویسے بھی کون انکاری ہے عورت کی عظمت سے؟ یقیناً وہی ہوگا جسکو جنم کسی مرد نے دیا ہوگا، دودھ ڈبے کا ملا ہوگا اور پرورش بھی کسی مرد نے کی ہوگی۔ باقی اخباری خبروں کی بات کریں تو جناب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں۔ اگر کُکر پھٹنے یا تیزاب پھینکنے کی بات کریں تو اس سے کہیں زیادہ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں مرد مارے جاتے ہیں، خدانخواستہ جواز نہیں دے رہا یا درست نہیں کہہ رہا اس کو، بس لاجک دینا چاہ رہا ہوں کہ ہر جگہ ہے، ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ آگے آپکی مرضی۔

عموماً خواتین کی کوئی بھی بات علامہ مرحوم کے اس مصرعہ سے ہی شروع ہوتی ہے،
                                         ؎           وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
مگر اس رنگ میں ہم اتنی بھنگ ڈال چکے ہیں کہ نہ وجودِ زن کا وجود باقی ہے اور نہ ہی تصویرِ کائنات کا رنگ۔ بہرحال میں تو ویمنز ڈے کی آڑ میں مردوں کے نا ملنے والے حقوق کا رونا رونے لگا ہوں۔ ہم نے تو نہ کبھی عورتوں کے حقوق صلب کیئے ہیں نہی آئیندہ ایسا کوئی مکروہ ارادہ رکھتے ہیں۔ اس نیک کام کیلئیے وڈیرے اور ماڈرن آنٹیاں ہی کافی ہیں۔ مجھے تو یہ نہیں سمجھ آتی کہ کونسے حقوق چاہتی ہیں خواتین؟ یقین جانیں عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہی ہے۔ ہم مرد بیچارے تو کسی شمار قطار میں آتے ہی نہیں۔ کبھی کسی مرد نے عورت کے خلاف کوئی سازش نہیں کی، بلکہ کل کائنات میں عورت کیلئے اگر کوئی جائے پناہ ہوتی ہے تو وہ مرد کی آغوش میں ہے۔ اب یہ فیصلہ اس پر ہے کہ وہ والد، بھائی، خاوند یا بیٹے میں تلاشے یا کسی اور طریقے سے۔ رہی بات حقوقِ نسواں کی، تو کونسے حقوق بھائی؟ کوئی ان فیشنی آنٹیوں سے پوچھے تو سہی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ طلاق لیکر، اولاد باہر ملکوں بھیج کر بوریت سے نجات پانے کیلئےانکو کوئی ‘ایکٹیوٹی’ چاہیئے اور کچھ نہیں۔
ماجرا کچھ یوں ہے کہ سن 1909 سے عورتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور پاکستان میں دیگر ایام کی طرح اب مذہبی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ پاکستان میں کیوں منایا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ مناتے ہیں وہ بذاتِ خود خواتین کے حقوق کے استحصال کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے ملک میں انتہاء پسندی ویسے ہی باافراط ہے اسلیئے میں اس قضیے کو زیادہ طول دیکر طعن و تشنیع کا سزاوار نہیں بننا چاہتا۔ میری گذارش فقط اتنی ہے کہ حقوق انکے پامال ہورہے ہیں جو بیچاریاں یہ تک نہیں جانتیں کہ آج انکے حقوق کا عالمی دن ہے، تو بجائے فیشنی آنٹیوں کی کیٹ واک دیکھنے کے ہم انکے لئے کچھ اچھا کریں جنکو واقعی ضرورت ہے۔
اب جیسے اگر ہم کچھ لکھتے تو اماں بانو کے بارے میں لکھتے جو بیچاری واقعی توجہ کی طلبگار ہے۔ 50-60 برس کی عمر میں بھی اپنی 12 سالہ بچی کے ساتھ گھروں کے برتن مانجھنے اور واش رومز دھونے پہ مجبور ہے۔ بیچاری کا گھر والا کئی سال پہلے گزر گیا، جیسے تیسے بڑے بیٹے کو پڑھایا لکھایا، بھتیجی کو بیاہ کر گھر لائی اور آتے ہی اسنے اماں بانو کو گھر سے دیس نکالا دیدیا۔ دنیا کی نظروں میں تو بیٹا ہی مجرم ہوا، اولاد خراب نکلی غریب کی مگر بہو بھی تو عورت ہی ہوئی نا؟
یہ تو ہوئی میری بات، جو دل میں تھی، دل میں ہی رہی، حتیٰ کہ آل پاکستان پونڈ ایسوسیشن والے عہدیداران ملے اور فرمائش کرڈالی کہ ایک ویمنز ڈے کی شان میں قصیدہ کہوں۔ وجہ یہ بتائی کہ اس روز خواتین بصد اہتمام و شوق سینہ تان کر (محاورتاً) دنیا سے لڑنے نکلتیں ہیں، اور اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ پھر جو ہم اردگرد نظر دوڑائی تو انکی بات کو کسی قدر درست بھی پایا۔ خواتین شکایت کرتی ہیں کہ مرد گھور کر دیکھتے ہیں، جبکہ مرد اسکو اپنا جمہوری اور قومی حق سمجھتے ہیں۔ سو ہم کوئی رائے نہیں دینگے، الیکشن کا سال ہے لگے ہاتھوں ایک ریفرنڈم اسکا بھی کروالیں۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا۔
آغاز میں عرض کی تھی کہ میں بائیکاٹ کررہا ہوں ویمنز ڈے کے پرمسرت موقعے پر کچھ نہیں لکھوں گا تو اسکی وجہ بس اتنی سی ہے کہ میں ایک مرد ہوں اور آج تک میرے حق کیلئے کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ میں اگر عورتوں کی مظلومیت پہ لکھوں تو گھر جانے پر دنیا کی سب سے مظلوم عورت میرا استقبال کرے گی اور شکوہ گزار ہوگی کہ میاں بلاگوں سے کچھ نہیں ہوتا، یہ دکھیاری جو تمھارے گھر میں پڑی ہے کچھ اسکے دکھوں کا بھی مداوا کرو، جیب ڈھیلی کرو، شاپنگ کراؤ، باہر ڈنر پہ لے چلو۔ اور اگر فیشی آنٹیوں اور ہوشرباء اداؤں پہ رقم طراز ہوں تو گھر جانے پر اسی دکھیاری نے پھولن دیوی بن کر 21 توپوں کی سلامی دینی ہے اور کان پکڑوا کر تفتیشی افسر بن جانا ہے کہ بتاؤ تمھارے دماغ میں کیونکر یہ مکروہ خیالات پنپنے پائے۔ اب کوئی بتائے ‘میں کیہڑے پاسے جاواں، میں منجی کتھے ڈاواں’ سو میں بائیکاٹ کرتا ہوں ویمنز ڈے کا اور کچھ نہیں لکھتا اس بارے میں۔