Abrar Qureshi Blog

قبض اور قائم علی شاہ

قبض اور قائم علی شاہ


اب پلیز ابھی سے یہ ازیوم نہ کرلیں کہ اس پوسٹ میں شاہ جی اور قبض کے بیچ کوئی ربط نکالا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں نے تو ازراہِ احتیاط دونوں کو ایک جملہ میں بھی نہیں استعمالا مبادا کوئی “جیالا” میرے متھے لگ جائے۔

جیسے انسان کی “آؤٹ پُٹ”  چوک ہوجائے تو اسکو قبض کہتے ہیں نا ویسے ہی اکثر و بیشتر سی پی یو المعروف دماغ بھی چوک ہوجاتا ہے۔ اس امر کو دماغی قبض کہا جاتا ہے۔ قبض میں مبتلا انسان چڑچڑا ہوجاتا ہے، اکتایا اکتایا رہتا ہے۔ لیکن یہ ہر “نہ آنیوالی چیز ” بارے نئیں کہا جاتا۔ مثلاً آپ نے کبھی کسی کو یہ کہتے نئیں سنا ہوگا کہ بجلی قبض ہوگئی ہرچند کہ لوڈشیڈنگ آور میں کیفیت اول الذکر قبض جیسی ہی ہوتی ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی سی بات آگئی تو تھوڑا اختصار کیساتھ بتا دیا تاکہ سند رہے اور کل کلاں اردو لغت وغیرہ واسطے باعثِ ریفرنس کام آوے۔

  اب ماجرا یہ ہے کہ الیکشن والی پوسٹ کے بعد سے کچھ لکھا نہیں گیا، کبھی فرصت نہ ملی تو کبھی موضوع موزوں نہ ہوا اور آج تو چاہنے کے باوجود کچھ نہیں آ رہا تھا تو خیال نے کہا کہ بچہ تجھے دماغی قبض ہوگئی ہے اور اب کسی ذہنی اسپغول کے پھکے مار! خیر ادھر اُدھر کی خبروں پہ تبصرہ سرا ہو کر اس دماغی قبض کا خاتمہ کرنے کی ٹھانی اور قبض کشا کے طور پر بجلی بحران میں سر کھپایا، غمِ جاناں کو تازہ کیا، فکرِ روزگار و ذکرِ یار کیا مگر سب بے سود۔

عجب اتفاق ہے جیسے ہی قبض کا لفظ لکھا اور سوچنا شروع کیا کہ کیا لکھا جائے، کسی بندہء خدا نے ٹوئیٹر پہ قائم علی شاہ کی پھر سے بطور وزیراعلیٰ سندھ نامزدگی کی بات کی اور ٹرینڈ بھی چلا دیا، ویسے یہ نامزدگی نہیں صریحاً حرامزدگی ہے۔  اس عمر میں ، جبکہ لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں، زرداری صاحب مزید  کیا کروانا چاہ رہے ہیں  شاہ جی سے۔ خیر وہ جو بھی چاہیں مگر شاہ جی ہماری بلاگی قبض واسطے ایک تیر بہدف نسخہ ثابت ہوئے اور انکے توسط سے ہمیں ‘آنے لگےغیب سے مضامیں خیال میں’۔ ایک جدید ریسرچ کے مطابق شاہ جی کی تاثیر بھی ٹھنڈی اور دھنیے کے مقابل ہے۔ شاید کراچی اور ٹیلیفون کی سیاسی گرمی کو ٹھنڈا کرنے کیلئے شاہ جی کا وہی کردار ہے جو ایٹمی ریئکٹر میں  ہارڈ واٹر(H3O) کا۔ سنا ہے الیکشنز کے نتائج آنے کے بعد زرداری صاحب قائم علی شاہ سے فرمارہے تھے

؎                     دلِ خوش فہم کو اب تک ہیں تجھ سے امیدیں

؎                       یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ

ٹوئیٹری ٹرینڈز کی بدولت معلوم ہوا کہ شاہ جی کوئی عام آدمی نہیں۔2008 سے قبل 1988 میں بھی وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں اور پرفارمنس و میرٹ ٹائپ غیر ضروری باتوں کو قوم کے وسیع تر مفاد میں جمہوری دائرہ خاطر میں نہیں لاتے نا ہی انکے واسطے خونِ جگر جلاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی آشکار ہوا کہ ڈائنوسار شاہ جی کے لڑکپن کے زمانے میں یہاں وہاں اچھلتے کودتے پھرتے تھے، پھر ‘کیا کیا صورتیں ہونگیں کہ خاک میں پنہاں ہوگئیں’۔ بلکہ اک ستم ظریف نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ شاہ جی اس دور کے ہیں جب انسان غاروں میں رہا کرتا تھا اور حشرات الارض کھا، پتے باندھ کر گزارا کرتا تھا، جبھی تو شاہ جی ‘روٹی کپڑا اور مکان’ کا نعرہ مستانہ لگاتے پھرتے ہیں۔ اور انکا پچھلا دورِ حکومت ‘بیک ٹو دا فیوچر’ کی ایک ادنیٰ سہی مگر سنجیدہ کوشش تھی۔  خدا جانے انکی کوشش کس قدر کامیاب ہوئی اور اب آگے  کا کیا لائحہ عمل و ہدفِ مسلسل ہوگا۔

بحثیت بزرگ انکی ایسی ہتک قابلِ مذمت ہے مگر جو انہوں نے اپنے تمام ادوارِ حکومت میں کیا وہ بھی قابلِ مذمت بلکہ بصد معذرت قابلِ مرمت ہے۔ ذیل  میں شاہ جی بارے عوام الناس کی رائے درج ہے، ان احباب کے نام قصداً مٹائے ہیں تاکہ کوئی دنگا فساد نہ مچ سکے۔ یہ ہماری نوجوان نسل کا خراجِ تحسین ہے شاہ جی کے لئیے۔ جو شاید شاہ جی کی خدمات کا صحیح اور مناسب صلہ ہیں۔اخیر میں شاہ جی سے ایک مودبانہ گذارش ہے کہ سائیں، سندھ بالخصوص کراچی منی پاکستان ہے، یہاں کے حالات پاکستان کے حالات پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں، خدارا اپنی ڈھلتی عمر کے صدقے ہی ذرا دھیان کرو اور جیسے میری دماغی قبض کیلئے قبض کشا ثابت ہوئے ہیں ویسے ہی پی پی پی کی نان پرفارمنس ، بیڈ گورننس اور کرپشن کی قبض واسطے بھی کچھ کیجئے!