نیم سرکاری افسر


 نوکریوں کے معاملے میں الحمدللّٰہ ہم قسمت کے دھنی واقع ہوئے ہیں۔ نوکریاں تو ماشااللّہ ہم ایسے بدلتے ہیں جیسے سیاستدان پارٹیاں اور ہیرونیں شوہر بدلتی ہیں۔البتہ  اتنی مروت  ضرور کرتے ہیں  کہ:

جو دل پہ گزرتی رہی رقم کرتے رہے

وہ کماتے رہے، ہم فقط گنتے رہے

چاہے وہ ایک وڈے صاحب سے مڈبھیڑ کے قصے ہوں یا یکے بعد دیگرے انٹرویوز اور انکار ہو۔ نوکری بارے ہم نے عرض گزارش کی تھی کہ ” مَردوں کو نوکری اور بیوی ہمیشہ دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ اول الذکر کے بارے تو از قہرو مہر ِ زوجہ کبھی سوچنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ تحقیق و تجسس کی ساری انرجی موخر الذکر پہ ہی صرف ہوئی ہے”۔ یہی تحقیق و تجسس ہمیں پرائیوٹ سیکٹر کی “کارپوریٹ سلیوری” سے “شاہ کا مصاحب” بناگئی، اب شہر میں پھرتے ہیں اتراتے۔

اگر اخباری اشتہار سے آفر لیٹر تک کے سفر کی رُوداد بیان کروں تو بلاگ کا ناول بن جائے۔ بس اتنا جان لیجئے کہ جب ایپلائی کیا تو فقط شادی شدہ تھے اور اپنے لخت جگر کی سالگرہ منا کر جوائن کیا۔ وہ جو غالبؔ نے کہا تھا ‘کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک’ وہ دراصل دفترِ سرکار میں عرضی کی شنوائی بارے کہا تھا۔ جہان دیدہ گھاگ بزرگان نے انٹرویو کے نام پر جو زبانی کلامی زیادتی کی وہ الفاظ کی گرفت سے باہر ہے۔ اسکے بعد سمجھ آئی کہ اجتماعی زیادتی زیادہ گھناؤنا جرم کیوں ہے۔ خیر، قصہ مختصر یہاں ہمیں آفر لیٹر ملا وہاں ہم نے گزشتہ کمپنی کو خیر آباد کہنا چاہا مگر  وہ داغدار ماضی کی طرح ساتھ چھوڑنے کو راضی نا ہوا اور نوٹس پیریڈ یوں گزرا جیسے خلُا کے مقدمے کی پیروی کرتے میاں بیوی ایک چھت تلے یوں رہ رہے ہوں کہ میاں روز کہے

“اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر”اور بیوی بھنا کر “مجھ سے پہلی سی محبت میرے ایکس ہزبینڈ نا مانگ”کا ورد شروع کردے۔

اللہ اللہ کرکے نوٹس پیریڈ ختم ہوا اور ہم دل میں جوش ولولہ امنگ اور ایسے ہی دیگر جذبات لیئے حجلہ سرکاری میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک  غور طلب بات یہ ہے کہ ہم اپنے خیال میں کافی سلجھے ہوئے، سمجھدار اور کومپیٹنٹ انسان ہیں یہ الگ بات کبھی اسکا چرچا نہیں کیا۔ خیر، ہم جوائننگ دینے پہنچے اور وہاں سے ازلی کھجل خوارگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔

جن صاحب کو اپنی ڈگریاں و دیگر کاغذات جمع کروانے تھے وہ عمراً قائم علی شاہ سے بڑے نہیں تو چھوٹے بھی نہیں تھے۔ ہمیں دیکھتے پھر تعلیمی اسناد و ایکسپیرئنس لیٹرز دیکھتے اور سردست “ہونہہ” کرتے آگے بڑھتے جاتے، ہماری تقریباً تمام اسناد میں از اینڈ کی غلطیاں نکالیں اور ایسی کوتاہ بینیوں کو ملک کے روبہ زوال ہونے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اس قدر غلطیاں نکلتی دیکھ کر ہمارا مائینڈ کرنا بنتا تھا سو کیا، تس پہ وہ بولے “برخوردار تم ابھی سے اکتا گئے ہو آگے میرے سے بڑی بڑی فلمیں منتظر ہیں”۔ یہ مرحلہ بھی جیسے تیسے پار ہوا پھر ہیومن ریسورس اور ہمارے ہونے والے ڈیپارٹمنٹ کی سرد جنگ شروع ہوئی کوڈ ورڈز میں پتہ نہیں کیا کیا لکھ کر گھماتے رہے جس کا نتیجہ یہ نتھا کہ غلطی ہماری ہے۔ تادمِ تحریر بھی ہماری فائل لاپتہ ہے، سوائے کاغذ کے ایک ٹکرے کے ہم یہاں ملازم نہیں اسی سبب تنخواہ آتی ہے پر نہیں آتی۔ ہمیں تو چوکیدار تک دیکھ کر کہتا ہے

دفتر ہمارا ہے یہ  تمہارا نہیں

ڈپارٹمنٹ میں جو آئے تو دیکھا کہ اپنے کام کے علاوہ ہر فن میں یکتا ہیں۔ آٹھ گھنٹے بور ہوئے بغیر کیسے کاٹنے ہیں انہی سے سیکھا ہے۔ کیسی چھوٹی سے چھوٹی بات پہ سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں کہ ریکارڈ شرما جائے۔ ہماری تیس سالہ زندگی کی سیکھی گندی باتیں ایک طرف اور یہاں چند ہفتوں کے دوران سیکھی باتیں ایک طرف۔ کام کو تنخواہ کا صدقہ سمجھتے ہیں اور فی زمانہ صدقہ کون کرتا ہے صاحب۔ بیلٹ کے سخت خلاف جوتے اور شرٹ کو منہ چڑھاتی پینٹ گویا یعنی کام تو بے ڈھنگا ہے فیشن بیہودگی کی حد تک بے ڈھنگا۔ باتیں ایسی ایسی کریں گے جیسے تمام تر پالیسیاں انہی سے پوچھ کر بنتی ہیں مشورے بھی ایسے نادر مگر “افسر” کے سامنے آتے ہی ایسے گھگھی بندھ جائے جیسے سنگدل محبوبہ کے سامنے تھوڑ دل عاشقوں کی۔

ہم جو بڑے ٹھاٹھ کیساتھ پرائیویٹ کمپنی سے ای میلز لکھتے پڑھتے آئے شروع میں جن  پہ علمی قابلیت جھاڑتے رہے اب انکی ڈاکٹری لکھائی میں فائلوں کے نوٹ پڑھنے و سمجھنے سے قاصر ہیں، پوچھیں توقابلیت کی جو زبانی دھاک بٹھائی ہے اس پہ برا اثر پڑتا ہے جو نا پوچھیں تو کام رکتا ہے۔ کام روکنے کی حد تک تو ہم نیم سرکاری افسر ہوگئے ہیں بس بغیرپڑھے  سمجھے فائل پہ ہاں نا کرسکنے کا انتظار ہے تاکہ مکمل سرکاری افسر بن سکیں۔

اوریجنلی پبلشڈ آن چائے خانہ ڈاٹ کام

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Google photo

You are commenting using your Google account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

Blog at WordPress.com.

Up ↑

%d bloggers like this: